وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم چارہ گرو تمہاری دعا چاہیے ہمیں پھر دیکھیے جو حرف بھی

کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے اور اس کے بعد سرابوں کا ایک دریا ہے ہے کب سے پردئہ آواز کو سکوتِ ہوس سکوت پردئہ آواز کو ترستا ہے نہ جانے کب سے اک آشوب ہے

ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا

تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو جو ملے خواب میں وہی دولت ہو میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں مر ہی جائوں جو تم سے فرصت ہو تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو اور

سارے رشتے بھلائے جائیں گے اب تو غم بھی گنوائے جائیں گے جانیے کس قدر بچے گا وہ اس سے جب ہم گھٹائے جائیں گے اس کو ہو گی بڑی پشیمانی اب جو ہم آزمائے جائیں

ایک آفت ہے وہ پیالئہ ناف کیا قیامت ہے وہ پیالئہ ناف اب کہاں ہوش ہم کو حشر تلک کہ سلامت ہے وہ پیالئہ ناف جون بابا الف کا ہے ارشاد کارِ وحدت ہے وہ پیالئہ

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے کہ ہٹ جائوں میں اپنے درمیاں سے یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے پرندے اڑ رہے ہیں شاخِ جاں سے دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں ہوا

بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی تو کیا خود کو بھی آدھا کر لیا کیا ہنر مندی سے اپنی

بے قراری سی بے قراری ہے وصل ہے اور فراق طاری ہے جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر اپنا سایہ بھی اب تو

دل کے ارمان مرتے مرتے جاتے ہیں سب گھروندے بکھرتے جاتے ہیں محملِ صبحِ تو کب آئیگی کتنے ہی دن گزرتے جاتے ہیں مسکراتے ضرور ہیں لیکن زیرِ لب آہ بھرتے جاتے ہیں تھی کبھی کوہ

مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے جدائی نے اسے دیکھا سرِ بام دریچے پر شفق کے رنگ برسے میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا اتارے کون

ساری باتیں بھول جانا فارہہ تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارہہ ہاں محبت ایک دھوکہ ہی تو تھی اب کبھی دھوکہ نہ کھانا فارہہ چھیڑ دے گر کوئی میرا تذکرہ سن کے طنزاً مسکرانا فارہہ

گزر آیا میں چل کے خود پر سے اک بلا تو ٹلی مِرے سر سے مستقل بولتا ہی رہتا ہوں کتنا خاموش ہوں میں اندر سے مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں یوں بھی

ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگ موسم ہے اور بادِ صبا شہر کوچوں میں خاک اُڑاتی ہے فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی ہے

ہم کہاں تھے اور تم کہاں جاناں ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا پر ہوا خوب رائیگاں جاناں میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے کس سے پوچھوں ترا نشان جاناں

ہے فصلیں اُٹھا رہا مجھ میں جانے یہ کون آ رہا مجھ میں جون مجھ کو جلا وطن کر کے وہ میرے بن بھلا رہا مجھ کو مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ اُمید سو بہت