وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم چارہ گرو تمہاری دعا چاہیے ہمیں پھر دیکھیے جو حرف بھی
وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم چارہ گرو تمہاری دعا چاہیے ہمیں پھر دیکھیے جو حرف بھی
کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے اور اس کے بعد سرابوں کا ایک دریا ہے ہے کب سے پردئہ آواز کو سکوتِ ہوس سکوت پردئہ آواز کو ترستا ہے نہ جانے کب سے اک آشوب ہے
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا
تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں جو کوئی کام نہ ہو بس وہ کرنے لگتے ہیں تمہارے آئینئہ ذات کے تصور میں ہم اپنے آئینے آگے سنورنے لگتے ہیں تمہارے کوچئہ جاں بخش کے
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو جو ملے خواب میں وہی دولت ہو میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں مر ہی جائوں جو تم سے فرصت ہو تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو اور
ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے اے جانِ داستاں! تجھے آیا کبھی خیال وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے ہم تیرے
سارے رشتے بھلائے جائیں گے اب تو غم بھی گنوائے جائیں گے جانیے کس قدر بچے گا وہ اس سے جب ہم گھٹائے جائیں گے اس کو ہو گی بڑی پشیمانی اب جو ہم آزمائے جائیں
جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے بہتر یہی ہے آپ مجھے بھول جائیے ہر آن اک جدائی ہے خود اپنے آپ سے ہر آن کا ہے زخم جو ہر آن کھائیے تھی مشورت کہ ہم
ایک آفت ہے وہ پیالئہ ناف کیا قیامت ہے وہ پیالئہ ناف اب کہاں ہوش ہم کو حشر تلک کہ سلامت ہے وہ پیالئہ ناف جون بابا الف کا ہے ارشاد کارِ وحدت ہے وہ پیالئہ
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے کہ ہٹ جائوں میں اپنے درمیاں سے یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے پرندے اڑ رہے ہیں شاخِ جاں سے دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں ہوا
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی تو کیا خود کو بھی آدھا کر لیا کیا ہنر مندی سے اپنی
بے قراری سی بے قراری ہے وصل ہے اور فراق طاری ہے جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر اپنا سایہ بھی اب تو
حسرتِ رنگ آئی تھی دل کو لگا کے لے گئی یاد تھی اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی خیمہ گہِ فراق سے خیمہ گہِ وصال تک ایک اُداس سی ادا مجھ کو منا کے
غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں ہاں اس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا کیا اس کو یہ لکھوں کہ لہو
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا سوائے پاسِ آدابِ تکلف اور کیا ہو گا صلیب وقت پر میں نے پکارا تھا محبت کو میری آواز جس نے بھی سنی ہو گی ہنسا
مستئی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی بھول گئے حرمِ ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے بُت گری بھول گئے بت شکنی بھول گئے یوں مجھے بھیج
دل کے ارمان مرتے مرتے جاتے ہیں سب گھروندے بکھرتے جاتے ہیں محملِ صبحِ تو کب آئیگی کتنے ہی دن گزرتے جاتے ہیں مسکراتے ضرور ہیں لیکن زیرِ لب آہ بھرتے جاتے ہیں تھی کبھی کوہ
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے جدائی نے اسے دیکھا سرِ بام دریچے پر شفق کے رنگ برسے میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا اتارے کون
ساری باتیں بھول جانا فارہہ تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارہہ ہاں محبت ایک دھوکہ ہی تو تھی اب کبھی دھوکہ نہ کھانا فارہہ چھیڑ دے گر کوئی میرا تذکرہ سن کے طنزاً مسکرانا فارہہ
گزر آیا میں چل کے خود پر سے اک بلا تو ٹلی مِرے سر سے مستقل بولتا ہی رہتا ہوں کتنا خاموش ہوں میں اندر سے مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں یوں بھی
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے رنگ موسم ہے اور بادِ صبا شہر کوچوں میں خاک اُڑاتی ہے فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں میز پر گرد جمتی جاتی ہے
ہم کہاں تھے اور تم کہاں جاناں ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا پر ہوا خوب رائیگاں جاناں میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے کس سے پوچھوں ترا نشان جاناں
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے پائوں پھسلا تو آسمان میں تھے ہے ندامت لہو نہ رویا دل زخم دل کے کسی چٹان میں تھے میرے کتنی ہی نام اور ہمنام میرے اور
ہے فصلیں اُٹھا رہا مجھ میں جانے یہ کون آ رہا مجھ میں جون مجھ کو جلا وطن کر کے وہ میرے بن بھلا رہا مجھ کو مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ اُمید سو بہت
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr