بکھرتے رنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں میں کیا تھا، اور اب کیا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں نہ جانے کس کا بدلہ لے گئی ہیں، ہوائیں مجھ سے کہ بس اک زرد
بکھرتے رنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں میں کیا تھا، اور اب کیا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں نہ جانے کس کا بدلہ لے گئی ہیں، ہوائیں مجھ سے کہ بس اک زرد
جو بھی جھوٹا تھا وہی خواب دکھایا خود کو بارہا میں نے بنایا ہے تماشا خود کو جو نامعلوم تھا پہلے اسے معلوم کیا پھر بہت دیر تلک غم میں جلایا خود کو کوئی بے مول
اگر کچھ رابطہ باہر سے بنتا جا رہا ہے خلا اندر کا بھی تو اور بڑھتا جا رہا ہے نہ جانے کس جگہ جا کر رکے گا سلسلہ یہ بہت سے ‘آنگنوں’ میں صحن بٹتا جا
دعا بھی دیتا ہے اور بددعا بھی دیتا ہے وہ کون ہے جو مجھے یوں سزا سی دیتا ہے میں اپنے آپ سے مخلص تو ہوں مگر کوئی درونِ ذات مجھے بددعا سی دیتا ہے بجا
کوئی پوچھے تو بتا دوں گا حال کیسا ہے سب سنا دوں گا مدتوں میں لکھا ہوا جیون ایک ہی سانس میں مٹا دوں گا اتنا کم فہم تو نہیں پھر بھی آپ کو دیوتا بنا
دَر دَر خود کو یوں نہ رولو کبھی تو چندا آنکھیں کھولو سب روئیں تو دم گھٹتا ہے سب سے تنہا ہو کے رو لو شب کے تارے ، گنتی اور تم دن نکلا ہے کچھ
پتہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے ہر انچ اک میل ہوتا جا رہا ہے غروبِ شمس کا منظر ہے۔۔۔۔۔۔۔جیسے سمندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھیل ہوتا جا رہا ہے جسے سمجھے تھے مہمل پہلے پہلے وہ خار اب۔۔۔۔۔۔۔۔کیل ہوتا جا رہا
میں سحرِ ناگہاں میں کھو گیا تھا ذرا سی دیر پاگل ہو گیا تھا کہانی میں نصیحت بھی تھی لیکن وہ بچہ سنتے سنتے سو گیا تھا سمندر جانتا ہے اس سے پوچھو ہوا میں کون
زمین کی چھت پہ پڑا آسمان ہوں تنہا عمارتوں میں گھرا اک مکان ہوں تنہا ادھورے چاند کی صورت دریدہ عکس بھی ہوں تہہ کھنڈر بھی ، بکھرتا نشان ہوں تنہا کبھی ہوں بھیڑ کہ ۔۔۔۔۔تل
مثلِ عمرِ خبرِ تو جب زندگی رہ جائیگی دیکھنا، مضمون میں پھر تشنگی رہ جائیگی باقی ساری شان سے رسمیں ادا ہونے کے بعد کیا خبر تھی بس یہی اک رخصتی رہ جائیگی پہلے پہلے فون
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr