بکھرتے رنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں

بکھرتے رنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں میں کیا تھا، اور اب کیا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں نہ جانے کس کا بدلہ لے گئی ہیں، ہوائیں مجھ سے کہ بس اک زرد

کوئی پوچھے تو بتا دوں گا حال کیسا ہے سب سنا دوں گا مدتوں میں لکھا ہوا جیون ایک ہی سانس میں مٹا دوں گا اتنا کم فہم تو نہیں پھر بھی آپ کو دیوتا بنا

دَر دَر خود کو یوں نہ رولو کبھی تو چندا آنکھیں کھولو سب روئیں تو دم گھٹتا ہے سب سے تنہا ہو کے رو لو شب کے تارے ، گنتی اور تم دن نکلا ہے کچھ

پتہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے ہر انچ اک میل ہوتا جا رہا ہے غروبِ شمس کا منظر ہے۔۔۔۔۔۔۔جیسے سمندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھیل ہوتا جا رہا ہے جسے سمجھے تھے مہمل پہلے پہلے وہ خار اب۔۔۔۔۔۔۔۔کیل ہوتا جا رہا

زمین کی چھت پہ پڑا آسمان ہوں تنہا عمارتوں میں گھرا اک مکان ہوں تنہا ادھورے چاند کی صورت دریدہ عکس بھی ہوں تہہ کھنڈر بھی ، بکھرتا نشان ہوں تنہا کبھی ہوں بھیڑ کہ ۔۔۔۔۔تل