اے دلِ بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشکبار! چپ ہو جا جا چکا ہے کاروان لالہ و گل اڑ رہا ہے غبار
اے دلِ بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشکبار! چپ ہو جا جا چکا ہے کاروان لالہ و گل اڑ رہا ہے غبار
مانا وادئی عشق میں پائوں اندھا رکھنا پڑتا ہے لیکن گھر کو جانے والا رستہ رکھنا پڑتا ہے تنہائی وہ زہر بجھی تلوار ہے جس کی دہشت سے بعض اوقات تو دشمن کو بھی زندہ رکھنا
کس کو بھاتی رہی رات بھر چاندنی جی جلاتی رہی رات بھر چاندنی ٹمٹماتے رہے حسرتوں کے دیے مسکراتی رہی رات بھر چاندنی اک حسیں جسم کی طرح آغوش میں
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر وحشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے آج اُس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر ان کے قدموں کے تلے
جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے بڑے خلوص سے دل نذر جام کرتا ہے ہم ہی سے قوس و قزح کو ملی ہے رنگینی ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے ہمارے چاک گریباں
تری دنیا میں یا رب زیست کے سامان جلتے ہیں فریب زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں دلوں میں عظمت توحید کے دیپک فسردہ ہیں جبینوں پر ریا و کبر کی فرمان جلتے ہیں ہوس
آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے ظلمتوں میں کرن سوالی ہے حادثوں نے رباب چھیڑے ہیں وقت کی آنکھ لگنے والی ہے حسن پتھر کی ایک مورت ہے عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے آئینے سے
آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا جب کبھی تقدیر نے گھیرا ہے ہمیں گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا شمع کی جوت پہ جلتے
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr