اے دلِ بے قرار چپ ہو جا

اے دلِ بے قرار چپ ہو جا جا چکی ہے بہار چپ ہو جا اب نہ آئیں گے روٹھنے والے دیدہ اشکبار! چپ ہو جا جا چکا ہے کاروان لالہ و گل اڑ رہا ہے غبار

آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے ظلمتوں میں کرن سوالی ہے حادثوں نے رباب چھیڑے ہیں وقت کی آنکھ لگنے والی ہے حسن پتھر کی ایک مورت ہے عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے آئینے سے