مشرقی عورت ::: شاہ بانو میر

دروازہ کھولیں ٹھک ٹھک ٹھک رات کے گیارہ بجے فرانس میں آپ کا دروازہ اس زور سے پیٹا جائے تو گھر کا ہر فرد بوکھلا جاتا ہے ـ میرے ہسبنڈ باہر گئے کہ آواز کسی دیسی

دنیاوی سب ذایقے وقتی اور نقصان دہ ہیں۔کِسی عمر رسیدہ مائی سے حالِ گزشتہ دریافت کریں کہ آج جو مائی ہے وہ بھی کبھی خوبرو حسینہ تھی۔ٹرین میں تو ایمرجنسی روکنے کا انتظام ہوتا ہے مگر

بادشاہ کےجوتے کہتے ہیں کسی بڑے ملک کے بادشاہ نے رعایا کی خبر گیری کیلئے مملکت کے طول و عرض کا دورہ کیا۔ اس لمبے سفر سے واپسی پر بادشاہ کے پیر کچے پکےر استوں اور

میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی، ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے حالات و روایات کی رو سے میں نے

علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجیے دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجیے

امتحان جیسا بھی ہو ایک کڑا وقت ہوتا ہے جس میں اعصاب اور نفسیات کا پہلو زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ بعض طلباء سارا سال سخت محنت کرتے ہیں لیکن امتحان میں توقع کے

کسی بھی دوسرے فن یا مہارت کیطرح کامیابی حاصل کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے اور ان تمام فنون اور مہارتوں کا دارومدار مکمل طور پر کامیابی اور جیت پر ہے۔ یعنی کسی بھی مقصد کے

چوتھا دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 11 ذی الحجہ 11 ذی الحجہ کو تینوں شیطانوں کو کنکری مارنی ہے۔ اسکا وقت سورج ڈھلنے کیبعد سے صبح صادق تک ہے لیکن سورج ڈوبنے کیبعد بلاعذر مکروہ ہے۔ جمرہ اولیٰ یعنی

پہلا دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8 ذوالحجہ متمتع یعنی جس نے عمرہ ادا کرنے کیبعد احرام کھول دیا تھا۔ آٹھویں ذوالحجہ کو غسل کرے اگر غسل نہ کر سکے تو وضو کر کے پہلے کیطرح احرام باندھے یعنی ایک

ایک جریدے میں شائع ہونیوالے سروے کے مطابق خواتین، مردوں سے اپنے بارے میں جو مشکل ترین سوالات پوچھتی ہیں وہ کم و بیش دنیا بھر میں یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ان سوالات کی تعداد

انٹرنیٹ کی ایجاد سے پہلے عالم بننے کیلئے یار لوگوں کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے تھے، ہزاروں میل کا سفر پیدل یا گھوڑوں، گدھوں کے ذریعے طے کر کے کسی اسکالر تک رسائی حاصل کرنا پڑتی

اس گرم اور بدن کو پیاس سے سکھا دینے والی رات کو گزرے بیس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، دن بھر قہر کی گرمی پڑی تھی اور سورج سے آگ برسی تھی اور

ایک مرتبہ کسی انٹرویو کے دوران ایدھی بابا سے پوچھا گیا کہ جناب یہ جو صاحب حیثیت لوگ غریب لوگوں کیلئے دیگیں چڑھاتے ہیں اور انہیں اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتے ہیں یا کسی خاص دن

زمانہ تیزی سے تبدیلی کی جانب رواں دواں ہے۔ آج کے دور کی نسبت ماضی میں وسائل محدود لیکن زندگی پرسکون تھی۔ رشتوں میں محبتیں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں۔ دلوں میں قربتیں تھیں، چنانچہ سب

بہت ساری کہانیاں اور فلمیں ایسی پڑھیں اور دیکھیں جن میں زندگی کے کچھ خاص دنوں کا ذکر ہوتا ہے جیسے ، وہ سات دن ۔۔ تیرہ دن یا ایسے ہی کچھ ۔۔۔ میری زندگی میں

ہر اتوار کو رشتہ دار ، دوست واحباب ہمارے گھر پر جمع ہوتے ہیں۔ صبع سے دوپہر تک لوگ آتے رہتے ہیں۔ ماں مزیدار کھانے تیار کرتی ہیں لڑکوں اور لڑکیوں میں بحث ہوتی ہے اور

ملیر کی یادوں کے ساتھ ہرے بھرے پیڑ وابستہ ہیں: امرود، آم، انار، نیم، گلاب، چمبیلی، موتیا۔ ہم بچے نانی کے گھر ہر ہفتے جایا کرتے۔ نانا اور ماموں کے کوارٹر ملے ہوئے تھے۔ ہر کوارٹر