چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں وہ اور ہوں گے جو خنجر چُھپا کے لائے ہیں ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں ہماری بات کی گہرائی
چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں وہ اور ہوں گے جو خنجر چُھپا کے لائے ہیں ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں ہماری بات کی گہرائی
سمندر پار ہوتی جا رہی ہے دُعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے دریچے اب کُھلے ملنے لگے ہیں فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے کئی دن سے مرے اندر کی مسجد خدا بیزار ہوتی جا رہی
محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے مرے اندر کا انساں مر رہا ہے جمی ہے سوچ پر قدموں کی چاپیں نہ جانے کون پیچھا کر رہا ہے میں اکثر بادلوں کو دیکھتا ہوں کوئی بوڑھا عیادت
وہ اک اک بات پہ رونے لگا تھا سمندر آبرو کھونے لگا تھا لگے رہتے تھے سب دروازے پھر بھی میں آنکھیں کھول کر سونے لگا تھا چُراتا ہوں اب آنکھیں آئینوں سے ٰخُدا کا سامنا
یہ زندگی کسی گونگے کا خواب ہے بیٹا سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا ہمارا نام لکھا ہے پُرانے قلعوں پر مگر ہمارا مقدر خراب ہے بیٹا گناہ کرنا کسی بے گناہ کی خاطر
جب میں دُنیا کے لیے بیچ کے گھر آیا تھا اُن دنوں بھی مرے حصے میں صفر آیا تھا کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو جُھلس ہی جاتا آگ اُگلتا ہوا سورج مرے گھر آیا تھا آج
سب ہُنر اپنی بُرائی میں دکھائی دینگے عیب تو بس مرے بھائی میں دکھائی دینگے اس کی آنکھوں میں نظر آئیں گے اتنے سورج جیسے پیوند رضائی میں دکھائی دینگے ہم نے اپنی کئی صدیاں یہیں
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اُڑا بھی نہ سکوں پھونک ڈالوں گا کسی روز میں دل کی دُنیا یہ تیرا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ
رشتوں کی دھوپ چھائوں سے آزاد ہو گئے اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے میں پربتوں سے لڑتا
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں نوجوان بیٹوں کو شہروں کے تماشے لے اُڑے گائوںکی جھولی میں کچھ مجبور مائیںرہ گئیں بُجھ گیا وحشی کبوتر کی
کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے کہاں یہ بیلچوں والے تگاریوں والے کبھی مچان سے نیچے اُتر کے بات کرو بہت پُرانے ہیں قصے شکاریوں والے مجھے خبر ہے کہ میں سلطنت کا مالک ہوں
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے جسم سے ساتھ نبھانے کی مت اُمید رکھو اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا
Copyright © 2005 Geo Urdu, All rights reserved. Powered by nasir.fr