چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں

چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں وہ اور ہوں گے جو خنجر چُھپا کے لائے ہیں ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں ہماری بات کی گہرائی

سمندر پار ہوتی جا رہی ہے دُعا، پتوار ہوتی جا رہی ہے دریچے اب کُھلے ملنے لگے ہیں فضا ہموار ہوتی جا رہی ہے کئی دن سے مرے اندر کی مسجد خدا بیزار ہوتی جا رہی

محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے مرے اندر کا انساں مر رہا ہے جمی ہے سوچ پر قدموں کی چاپیں نہ جانے کون پیچھا کر رہا ہے میں اکثر بادلوں کو دیکھتا ہوں کوئی بوڑھا عیادت

وہ اک اک بات پہ رونے لگا تھا سمندر آبرو کھونے لگا تھا لگے رہتے تھے سب دروازے پھر بھی میں آنکھیں کھول کر سونے لگا تھا چُراتا ہوں اب آنکھیں آئینوں سے ٰخُدا کا سامنا

کہاں وہ خواب محل تاج داریوں والے کہاں یہ بیلچوں والے تگاریوں والے کبھی مچان سے نیچے اُتر کے بات کرو بہت پُرانے ہیں قصے شکاریوں والے مجھے خبر ہے کہ میں سلطنت کا مالک ہوں