چمن چمن اسی رنگین قبا کو دیکھتے ہیں
شعلہ حسن مجسم گریہ شبنم بھی ہے
ٹھوکریں کھا کے جو سنبھلتے ہیں
پہلو میں دل ہو اور ذہن میں زباں ہو
زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا
المدد اے چاک دامانو، قبا خطرے میں ہے
جو غم شناس ہو ایسی نظر تجھے بھی دے
کیا خبر تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کر دیگا
نظر ملا کے ذرا دیکھ مت جھکا آنکھیں