مستئی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے

Aatish e ishq

Aatish e ishq

مستئی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی بھول گئے

حرمِ ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے
بُت گری بھول گئے بت شکنی بھول گئے

یوں مجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا مرے دوست مری سادہ دلی بھول گئے

میں تو بے حس ہوں مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روشِ چارہ گری بھول گئے

اب میرے اشکِ محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے

اب کوئی مجھ کو دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے

اور کیا چاہتی ہے گردشِ ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے اس کی گلی بھول گئے

کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی بھول گئے

جون ایلیا