پاکستان ریلوے زبوں حالی کا شکار کیوں؟

Pakistan Railway

Pakistan Railway

اگر پاکستان کی 65 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ شہیدوں کی اس سرزمین پر ہمیشہ سے ہی مخلص اور ایماندار قیادت کا فقدان رہا ہے۔ ہر کسی نے اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر خوب لوٹا۔ قوم کے پیسے کو اپنی عیاشیوں اور جاگیرداری کو بچانے کے لئے استعمال کیا۔ نتیجتاً دیگر ممالک کی مانند ہماری معیشت مضبوط ہونے کی بجائے مسلسل کمزور سے کمزورتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس شے میں ذرا سا اپنا مفاد نظر آیا اسے کوڑیوں کے بھائو بیچنے میں یہ کرم فرما اک لمحے کی دیر نہیں کرتے۔اور ان کے اس عمل کے ان کے پاس ایسے من گھڑت جواز ہوتے ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔

یہاں کم ظرف لوگوں کی غضب فن کاریاں دیکھیں
کرم فرما کسی حیرت کدے سے کم نہیں ہر گز

سٹیل ملز کراچی، پی آئی اے، پی ٹی سی ایل، پی ایس او،پاکستان ریلوے بہت منافع بخش کمپنیاں تھیںمگر ان مفاد پرست حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور چیک اینڈ بیلنس کے ناکارہ نظام کے باعث یہ تمام بھی ناکارہ ہو چکی ہیں۔ ان میں سے بعض کو بیچ دیا گیا اور جو سرکار کے پاس ہیں ابھی تک وہ بھی بے حال ہیں۔آج میرا موضوع بحث ریلوے ہے۔کسی بھی ملک میں ریلوے کی آمدن کا زیادہ تر انحصار مال گاڑی پر ہوتا ہے اور بہتر اور سستی سفری سہولیات فراہم کرنے کے لئے مال گاڑی سے حاصل شدہ آمدن میں سے مسافروں کے لئے اعانہ دیا جاتا ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا کی ریلوے نے ایک سال میں 990 ارب روپے کمائے۔ واضح رہے کہ ریلوے کا صرف 40 فیصد انفراسٹرکچر استعمال کر کے مال گاڑی نے اس کل آمدن کا 70 فیصد کمایا۔جبکہ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ45 بلین روپے سالانہ خرچ کرکے صرف 15 بلین روپے کما رہا ہے۔

یعنی30 بلین روپے سالانہ خسارے کا سامنا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے ریلوے سے متعلق جو حیرت انگیز انکشافات کئے انہیں سوچ سوچ کر میری سِٹی گم ہوگئی۔ آپ بھی پڑھئیے اور حیران و پریشان ہوتے رہئیے کیونکہ ہم جوتے مارنے والوں کا ہاتھ روکنے کی بجائے مارنے والوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کرنے والے لوگ ہیں۔ان صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان ریلوے کا سب سے بڑا مسئلہ انجنوں کی کمی ہے۔

Mobil Oil

Mobil Oil

اور اس کی سب سے بڑی وجہ گندے اور استعمال شدہ موبل آئل کا استعمال ہے۔اس ناقص موبل آئل کی وجہ سے کرینک شافٹس ٹوٹ جاتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایک کرینک شافٹ کی قیمت ستر لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک ہے۔

واضح رہے کہ مارکیٹ سے ایک کرینک شافٹ خریدنا ممکن نہیں۔کم سے کم دس سے پندرہ کرینک شافٹس کا آرڈر دینا پڑتا ہے اور ریلوے کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ آج کوئی چیز خریدنے چلے ہیں تو وہ آپ کو تیرہ ماہ بعد ملے گی اور تب تک مزید بیس انجن ناکارہ ہو جائیں گے۔

بے حسی اور بد دیانتی کا اندازہ لگا ئیے کہ لاہور سے کراچی تک کے یک طرفہ سفر میں 7.5 بیرل موبل آئل استعمال ہوتا ہے مگر اس میں سات گنا کم یعنی صرف ایک بیرل موبل آئل ڈالا جاتا ہے اور کاغذات میں7.5 بیرل ہی لکھا جاتا ہے ۔ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ یہ جو ایک بیرل ڈالا جاتا ہے یہ بھی گندہ اور استعمال شدہ موبل آئل ہوتا ہے۔

وزیر ریلوے نے جولائی میں قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ہمارے پاس کل 494 ڈیزل انجن موجود ہیں جن میں سے13 ایسے ہیں جو مرمت نہیں ہو سکتے۔مطلب کہ باقی 481 قابل استعمال بنائے جا سکتے ہیںجن میں سے ایک سو دس استعمال کئے جا رہے ہیںاور تین سو اکہتر شیڈز میں کھڑے ہیں۔ قومی اسمبلی میں145 انجنوں کی مرمت کا جو تخمینہ پیش کیا گیا وہ 6 ارب 10کروڑروپے ہے۔ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو تمام انجنوں کی مرمت پرآنے والی لاگت 20 ارب روپے کے قریب بنتی ہے اور اس کے لئے ڈیڑھ سے دو سال کا عرصہ درکار ہے۔

اگرصرف ان تمام انجنوں کی مرمت کر کے ٹریک پر لایا جائے تو پاکستان ریلوے سالانہ 26 ارب کمائے گا جبکہ ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار چھ سو ستر ایکڑ اراضی سے حاصل ہونے والی آمدن اس کے علاوہ ہوگی ۔قومی اسمبلی میں قائمہ کمیٹی برائے ریلوے نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو یاد رہے کہ 2002 میں اس زمین کی مارکیٹ پرائس 246 ارب روپے بتائی گئی جو کہ اب تک آٹھ سے دس گنا بڑھ چکی ہے۔ اگر چار گنا بھی بڑھی ہو تو اب اس کی قیمت ایک ہزار ارب روپے بنتی ہے۔

نا اہلی اور بے حسی کایہ عالم ہے کہ اس سب کے باوجود ریلوے 50، 50 کروڑروپے کے لئے کبھی پی ایس او ر کبھی اسٹیٹ بینک سے بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔بددیانتی اور بے حسی کی اس داستان کو صفحہ قرطاس کی نذر کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ میں اپنی اس معصوم قوم سے بس اتنا ہی کہوں گا کہ
تو کیا یہ طے ہے کہ اب سوچنا نہیں ہر گز
تو کیا یہ طے ہے کہ سب کچھ گنوا کے دم لو گے

Tajammal Janjua

Tajammal Janjua

تحریر: تجمل محمود جنجوعہ
tmjanjua.din@gmail.com
0301-3920428