چھوڑی ہوئی بستی کا وہ منظر نہ ملیگا

villige

villige

چھوڑی ہوئی بستی کا وہ منظر نہ ملیگا
گھر لوٹ کے جائو گے تو وہ گھر نہ ملیگا

اس جنگ میں گر جیت بھی جائو گے تو کیا ہے
اس تاج کو رکھنے کیلئے سر نہ ملیگا

اس شہر کے لوگوں کو یقیں ہی نہیں کل پر
اس شہر کی گلیوں میں گداگر نہ ملیگا

میں جانتا ہوں پاس بلائے گا نہ مجھ کو
میں جانتا ہوں وہ کبھی آکر نہ ملیگا

اُڑ جائیگا وہ خواب درِ چشم کے کُھلتے
خوشبو ہے وہ پھر پھول کے اندر نہ ملیگا

افتخار نسیم