بیرون ملک کے سرکاری دورے اور قومی پرچم کی درآمد

Pak and China

Pak and China

تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ
یہ خبر پڑھتے ہی قلم اٹھانے پر مجبو ر ہوگیا کہ چینی صدر شی چن ینگ کے دورے کا ایک اہم اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ اس دورے میں پارلیمنٹ ہائوس ، وزیراعظم کے دفتر اور دیگر مقامات پر پاکستان اور چین کے جو قومی پرچم آویزاں کئے گئے تھے وہ ترکی سے درآمد کئے گئے تھے۔چیئرمین سی ڈی اے نے یہ بات بڑے فخر کے ساتھ اسپیکر قومی اسمبلی کو بتائی۔ وہ تو بڑے فخر سے بتا رہے تھے اور اسپیکر صاحب بھی بڑے اطمینان سے درآمد شدہ قومی پرچموں کے بارے میں سُن رہے تھے مگر مجھے شرمندگی اور افسوس ہورہا ہے کہ جو ملک اپنا قومی پرچم بھی خود نہیں بنا سکتا وہ خاک ترقی کرے گا۔ ملک بھی ایسا ہو کہ جو دنیا میں کپڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے لیے نمایاں مقام رکھتا ہو۔ حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے پاکستانی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے کوٹے میں اضافہ سے حکومت اپنی کارکردگی کا ہر طرف راگ الاپ رہی تھی لیکن یہ کیا ہمیںخود اپنا قومی پرچم بنانا بھی گورا نہیں۔حالانکہ حکومت پاکستان کی پالیسی ہے کہ غیر ملکی ٹیکسٹائل کی مصنوعات ملک میں درآمد نہ کی جائیں۔ جس چین کی طرف ہم مدد اور سرمایہ کاری کے لیے دیکھ رہے ہیں وہ تو ایسا نہیں کرتا۔دنیا بھر کے ممالک اپنی بنی ہوئی چیزوں پر فخر کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں غلامانہ ذہنیت ہے کہ بدیسی اشیاء کو اہمیت دی جاتی ہے اور اب تو بات قومی پرچم تک جاپہنچی ہے۔قومیں اپنے آپ پر فخر کرکے ہی آگے بڑھتی ہیں۔

جب تک قوم کی قیادت میں خود اعتمادی، وقار اور حمیت نہیں ہوگی دیگر اقوام میں سر فخر سے اٹھا کر نہیں چل سکتے ۔ ضرورت اس امر کی احساس کمتری کی بجائے اپنے آپ پر فخر کرنا سیکھا جائے۔ہمارے ارباب اختیار کو کچھ تو سوچنا چاہیے۔کچھ باخبر ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ یہ سب کمیشن مافیا کی کارستانی ہے وگرنہ وہ پرچم پاکستان میں بھی بن سکتے تھے۔ علامہ اقبال کا یہ پیغام کیوں ارباب اختیارر کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے کہتیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ہیں ایرانی لہْو مْجھ کو رْولاتی ہے جوانوں کی تن آسانی یورپ میں موسم بہار اور خوشگوار گرمیوں شروع ہوتے ہی پاکستان سے سرکاری وفود کی یہاں آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سول اور فوجی بیوروکریسی کا ایک بھاری بھرکم وفد آج کل سویڈن اور فن لینڈ کے دو ہفتے کے دورہ پر ہے۔ وفد نے سویڈش پارلیمنٹ، اہم دفاعی اداروں اور مختلف مقامات کا دورہ کیا۔

سفیر پاکستان جناب طارق ضمیر نے وفد کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا۔ جپ آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے مذکورہ وفدفن لینڈ میں اپنی سرکاری مصروفیات جاری رکھے ہوئے گا۔ایک اور وفد ہنگری اور برطانیہ کے دورہ پر ہے اور اسی طرح کے کئی اور وفود یورپ کے دیگر ممالک کے دورہ پر ہیں۔ ان دوروں کو اہم مقصد یہ بتایاجاتا ہے کہ دنیا نے جو ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے اس سے سبق سیکھ کر پاکستان کو بھی اسی شاہراہ ترقی پر گامزن کیا جائے۔ پینسٹھ سالوں سے سرکاری دورے بھی جاری ہیں۔ حکومتی خرچ پر ہزاروں افراد نے اعلٰی تعلیم بھی بیرونی ممالک سے حاصل کی ہے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

سیاستدانوں ، بیوروکریسی، ارباب اقتدار اور طلباء کے وفود بھی غیر ملکی دورے کرتے رہتے ہیں۔ ان دوروں پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر ہی یہ سرکاری دورے ممکن بنائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان دوروں سے آج تک کیا حاصل ہوا ہے۔ کیا وہاں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جو بھی بیرونی دورے پر جاتے ہیں اور وہاں کی ترقی اور بہترین نظام سے متاثر ہوتے ہیں لیکن پاکستان پہنچتے ہی جب وہ گھڑی کی سوئیاں بدلتے ہیں ساتھ اپنا پہلے والا ذہن اور رویہ اختیار کرلیتے ہیں یوں ان دوروں کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دوروں کا مقصد واپس جا کر عوامی فلاح و بہبود کے مثبت تبدیلوں کا آغاز ہونا چاہیے نہ کہ سیر سپاٹے اوروہ بھی اس ملک کے ارباب اختیار کی جانب سے جو بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور دوسروں کا دست نگر ہے۔

اگر ان دورں سے ملک اور قوم کو فائدہ نہیں ہورہا تو انہیں بند کرکے وہی رقم سکولوں، ہسپتالوں ، سماجی بہبود اور سائنسی ترقی پر خرچ کی جائے۔دور جدید میںاب ایسے ذرائع میسر ہیں جن کی مدد سے وہاں رہ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور دورے کرنا ہی لازم نہیں۔یہی بات سویڈش میڈیا نے ١٩٧٦ء میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کہی تھی جو ٧٠ افراد پر مشتمل وفد لے کے سویڈن اور کینیڈا کے دورے پر آئے تھے ۔ بے نظیر بھٹو اپنی وزارت عظمیٰ میں اس سے بھی بڑا وفد لے کر سویڈن آئیں ۔ بیرون ملک کے سرکاری خرچ پر دوروں کا یہ سلسلہ ایسا جاری ہے کہ ہر حکومت سابقہ ریکارڈ توڑ رنے کے لیے سرگرم رہتی ہے۔سویڈن اور فن لینڈ کے دورہ کرنے والے وفدکے بارے میں معلوم نہیں کہ انہوں نے یہاں سے کیا سیکھا ہے۔

اگرانہوں نے کچھ سیکھنا ہے تو یہ سیکھیں کہ یہاں کے سرکاری اہلکار قومی وسائل کو شیر مادر نہیں سمجھتے ۔ یہاں ٹیکس چوری جرم عظیم ہے ۔ سرکاری اہلکار صرف قانون کی پاسداری کرتے ہیںاور قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے۔تعلیم اور صحت کی سہولتیں سب کے لیے برابر ہیں۔ افتتاح ، سنگ بنیاد اور سرکاری تشہیر کا یہاں کوئی تصور نہیں۔ تمیز بندہ و آقا یوں ختم کی ہے کہ سرکاری دفتروں میں چپراسی اور گھروں میں بیٹ میں نہیں ہیں۔سرکاری رہائشوں، گاڑیوں اور ڈرائیوروں کی سہولت نہیں۔ Sir اور Peonکے الفاظ ہی ڈکشنری سے غائب ہیں۔یہاں عوام کو اپنے مسائل حل کروانے لے لیے دفتروں کے چکر نہیں لگانا پڑتے اور سب کام خط، فون یا ای میل کے ذریعہ ہوجاتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

کیا پاکستان کی بیوروکریسی یورپ کے ان دوروں کے بعد وہاں کے دفتری نظام کو بدل سکے گی۔کیا سائلوں کے ہاتھوں سے فائلیں چھڑا کر ان کے کام سویڈن کی طرح حل کرائے جاسکیں گے۔کب تک ہر کام کی تان ڈی جی اور سیکریٹری پر ہی جاکر ٹوٹے گی۔کیا پاکستان کے عوام کو افسر شاہی سے نجات مل سکے گی۔سویڈن میں کوئی سی ایس پی کلچر نہیں۔ عہد ِوکٹوریہ کا دفتری نظام اور کاغذی کاروائی کا دور کب ختم ہوگا۔ صاحب اور آقا کا کلچر کیا ختم ہوسکے گا۔ سویڈن میں صفائی کرنے والا اور ادراے کا سربراہ ایک ہی لنچ روم استعمال کرتے ہیں گویا محمود و ایاز میں فرق نہیں روا رکھا جاتا۔ان دوروں سے اگر وہاں کا نظام بدل سکے پھر تو یہ واقعی ضروری ہیں بصورت دیگر یہ سرکاری خرچ پر محض سیر و تفریح ہے۔ اگرپاکستانی وفدسویڈش وزیراعظم کا یہ پیغام کہ مستقبل سکول سے شروع ہوتا ہے ہی ساتھ لے جائے تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔

سویڈش وزیراعظم کا کہنا ہے کہ طلباء کو بہترین اساتذہ، ماحول اور منصفانہ وسائل مہیا کریں گے تاکہ اگلی نسل ہمیں اچھا مستقبل دے سکے کیونکہ مستقبل سکول سے شروع ہوتا ہے۔ سویڈن میں ایک ہی طرح کا نظام تعلیم اور سکول ہیں ۔ پرائیوٹ سکول نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اعلٰی حکومتی عہدیدار ہوں یا سرکاری ملازمین سب بچے سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں۔ جس دن پاکستان کے ارباب اختیار اور بیوروکریسی کے بچے سرکاری سکولوں میں جانا شروع کردیں گے ملک کا ترقی کے طرف سفر شروع ہوجائے گا۔ قومیں علم کی بدولت ہی ترقی کرتی ہیں۔

علامہ اقبال نے بھی یہی کہا تھا کہ تعلیم و افکار سے نئے جہاں پیدا ہوتے ہیں نہ کہ سنگ و خشت اور بڑی تعمیرات کرنے سے۔سیکھنا ہے تو اقوام یورپ سے یہ سیکھو ۔ممکن ہے یہ نالہ و فریاد کسی پر ا ثر کرے اور وہ کم از کم اپنے دائرہ اختیار میں جو بہتری لاسکتا ہو لے آئے اور بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو۔ قوموں کیبہتری کا سفر اسیے ہی شروع ہوتا ہے کیونکہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔

Arif Kisana

Arif Kisana

تحریر : ڈاکٹر عارف محمود کسانہ