بیسوی صدی کا ایک بڑا نام خلیل جبران

Khalil Gibran

Khalil Gibran

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
لبنانی نژاد امریکی فنکار،شاعر، مصنف اور دانشور خلیل جبران کو کون نہیں جانتا ۔جبران لبنان کے شہر بشاری میں ایک عیسائی پادری کے گھر 6 جنوری 1883ء کو پیدا ہوئے، جواس وقت سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔جبران کی ماں کا نام کملہ تھا اور والد کا نام خلیل جو کہ کملہ کے تیسرے شوہر تھے ۔ غربت کی وجہ سے جبران نے اسکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی۔لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل اور اس کی تفسیر پڑھی۔جبران کے والد خلیل پہلے مقامی طور پر نوکری کرتے تھے ، لیکن بے تحاشہ جوا کھیلنے کی وجہ سے قرضدار ہوئے اور پھر سلطنت عثمانیہ کی ریاست کی جانب سے انتظامی امور کی نوکری کرتے رہے۔ وہ ایک دستے کے سپہ سالار تھے ۔
غالباََ 1891 ء یا اسی دور میں جبران کے والد پر عوامی شکایات کا انبار لگ گیا اور ریاست کو انھیں معطل کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کی اپنے عملے سمیت احتسابی عمل سے گزرنا پڑا ان کو قید کر لیا گیا ۔ جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔اسی وجہ سے جبران کی والدہ نے امریکہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں کملہ کے بھائی جبران کے ماموںرہائش پذیر تھے ۔یوں 25 جون 1895 ء کو خلیل، اپنی بہنوں ماریانا اور سلطانہ، اپنے بھائی پیٹر اور جبران سمیت نیویارک جا بسے۔جبران کی والدہ نے کپڑے کی سلائی کا کام شروع کیا۔

جبران کو 30 ستمبر 1895ء میں اسکول داخل کروایا گیا اور اسکول کے رجسٹر میں ان کا نام غلطی سے جبران خلیل کی بجائے خلیل جبران درج ہوا اور پھر اسی نام سے شہرت حاصل کی ۔جبران نے مغربی رنگ جلد قبول کیا اس کی والدہ نے اسے اپنی ثقافت سے جوڑے رکھنے کے لیے پندرہ سال کی عمر میں اسے واپس لبنان بھیج دیا جہاں انھوں نے ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کی پھر بیروت میں اعلیٰ تعلیم کے لیے منتقل ہوئے ۔ بیروت میں اپنے کلاس فیلو سے مل کر ایک ادبی پرچہ نکالااور کافی عرصہ بعد 1902ء میں واپس بوسٹن آگئے ۔ بوسٹن واپسی سے دو ہفتے قبل ان کی بہن سلطانہ تپ دق کی وجہ سے وفات پا گئی تھیں ۔ایک سال بعد بھائی پیٹر بھی تپ دق کی وجہ سے فوت ہوا اور انہی دنوں اس کی ماں کینسر کی وجہ سے جہان فانی سے کوچ کر گئیں ۔اب صرف جبران اور اس کی بڑی بہن ماریا نہ رہ گئے ماریانہ نے بھائی کی کفالت کی وہ ایک درزی کے پاس ملازمت کرنے لگی ۔

English

English

جبران خلیل نے اپنے فن پاروں کی پہلی نمائش 1904ء میں بوسٹس کے ”ڈے سٹوڈیو” میں ہوئی اسی نمائش میں جبران کی پہلی ملاقات میری الزبتھ ہاسکل سے ہوئی جو کہ اس وقت تعلیمی ادارے کی سربراہ تھیں اور جبران سے دس سال بڑی تھیں۔ ان دونوں میں دوستی ہوئی اور یہ دوستی محبت میں بدلی اور ان کا ساتھ جبران کی وفات تک رہا۔ گو ان کی دوستی کو معاشرے میں قبول نہیں کیا گیا ۔بدنام کیا گیا ۔انگلیاں اٹھائی گئیں ۔ 1908ء سے جبران پیرس میںتعلیم حاصل کرتے رہے ، وہیں ان کی ملاقات اپنے ایک ہم جماعت یوسف ہوہاک سے ہوئی ۔دونوں گہرے دوست بن گئے یہ دوستی بھی زندگی بھر جاری رہی۔شروع میں جبران نے عربی میں لکھا لیکن 1918 کے بعد انگریزی میں لکھنا شروع کیا ۔پہلی کتاب 1918 ء میں شائع ہوئی ۔ Madman۔The یہ ایک چھوٹی سی کتاب نثر اور نظم پر مشتمل تھی۔

جبران کی سب سے مشہور کتاب Prophet The یا پیغامبر ہے، جس میں کل 26 مضامین ہیں۔ یہ کتاب 1923ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اپنی پہلی اشاعت کے بعد اب تک یہ کتاب شائع ہو رہی ہے اور اس کے دنیا کی چالیس سے زیادہ زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔بیسویں صدی میں یہ کتاب سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہے ۔جبران خلیل 10 اپریل 1931ء کو نیویارک میں وفات پا گئے ۔ ان کی موت جگر کی خرابی اور تپ دق کی وجہ سے ہوئی۔ اپنی موت سے پہلے جبران نے خواہش ظاہر کی کہ انھیں لبنان میں دفن کیا جائے ۔ ان کی یہ آخری خواہش 1932ء میں پوری ہوئی ،جب میری ہاسکل اور جبران کی بہن ماریانہ نے لبنان میں مارسرکاس نامی خانقاہ خرید کر وہاں ان کو دفن کیا اور جبران میوزیم قائم کیا۔جبران کی قبر کے کتبے پر جو الفاظ کشیدہ کیے گئے ،وہ کچھ اس طرح ہیں۔”میں زندہ ہوں تمھاری طرح اور میں تمھارے ساتھ ہی کھڑا ہوں۔ اپنی آنکھیں بند کرو اور اردگرد مشاہدہ کرو، تم مجھے اپنے سامنے پاؤ گے ”
جبران نے اپنے سٹوڈیو کی تمام اشیاء اور فن پارے میری ہاسکل کے نام وصیت کر دیے تھے ۔میری ہاسکل اورجبران کے درمیان 23 سال تک خط و کتابت ہوئی۔ ان خطوط کا کچھ مواد 1972ء میں کتاب Beloved Prophet میں شائع ہوا۔

خلیل جبران کے شہہ پاروں سے ماخوذ چند اقتباسات درج ذیل ہیں ،جو خلیل جبران کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔سخاوت یہ نہیں کہ تم مجھے وہ چیز دے دو جس کی میرے مقابلہ میں تمہیں ضرورت نہیں بلکہ سخاوت یہ ہے کہ تم مجھے وہ چیز دے دو جس کی تمہیں مجھ سے زیادہ ضرورت ہے ۔بعض انسانوں کی شخصیت میں ایسی تابندگی ہوتی ہے جو خود ان کی شناخت کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے ۔ایسے لوگوں کو ان کی موت کے بعد پہچانا جاتا ہے ۔آؤ اس انسانیت کی بات کریں جو انسان کو جنم دے کر بانجھ ہوگئی ہے ۔ جو دور پھٹے چیتھڑوں میں ملبوس اپنے بچوں کو پکار رہی ہے ۔ وہ بچے جو انسان سے زیادہ قوم بن گئے ہیں۔پس جب غم کا سخت اور تکلیف دہ موسم تم پر گزرے گا تو تم سنجیدگی اور استقامت کے ساتھ اپنی اس حالت کا مطالعہ کرو گے اور تمھارا بہت سا دکھ تمھارا اپنا انتخاب ہے ۔

اگر تم تنہا ہو اوروقت کے دل شکن لمحات تمھارے دل کے محسوسات کو پامال کر رہے ہیں تو کیا ہوا، تم اس دنیا میں اکیلے آئے تھے اکیلے ہی جاؤ گے جب قدرت نے تمھیں اکیلا ہی تخلیق کیا ہے تو پھر تنہائی سے کیوں گھبراتے ہو۔اگر آپ صرف وہی دیکھتے ہیں جو دنیا آپ کو دکھاتی ہے ، اور صرف وہی سنتے ہیں جو دْنیا آپ کو سناتی ہے ، تو یقین کیجیے کہ آپ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔میں نے بکواسیوں سے خاموشی تشدد پسندوں سے سہولت پسندی اور درشت مزاجوں سے نرمی سیکھی’ لیکن لطف کا مقام ہے کہ ان میں ان معلموں میں سے کسی کا احسان ماننے کے لئے تیار نہیں۔اگر میں صرف انہی چیزوں پر اکتفا کروں جنہیں تم جانتے ہو۔تو ان چیزوں کو کہاں لے جاؤں جنہیں تم نہیں جانتے ۔اگر تم بھوکے کے سامنے گاؤ گے تو وہ اپنے پیٹ سے تمہارا گانا سنے گا۔

Akhtar Sardar CH

Akhtar Sardar CH

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال