یقین کامل

Dua

Dua

تحریر : کومل سعید
زندگی میں سکون کا وجود ایک خواب کی طرح ہو گیا ہے جسکی تعبیر کا ہر کو ئی متقاضی ہے اس مشینی دور میں ہزاروں آ سا ئشوں کے با و جود امیر غریب ،بچہ بوڑھا سب بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں ۔پہلے لو گوں کے پا س نہ تو دولت کی فروانی تھی اور نہ ہی ز ند گی کی سہو لیا ت میسر تھیں مگر پھر بھی لو گ خوشحال تھے ۔ آ ج کل عالم کُل پر یشا نی کی تصویر بنا ہو اہے ۔مگر انسان وہی اچھا ہے جو ان مشکلا ت کے حل کیلئے کو شاں رہے نہ کہ مایوسی کا شکار ہو کر خود کو خراب حالا ت کے د ھا رے پہ چھوڑ دے ۔لیکن کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ مشکل کے وقت ہر گلی بند ملتی ہے اور انسا ن خود کو بے بسی کی انتہا ء پہ اکیلا محسوس کر تا ہے ۔اسے مشکلات کے گھپ اند ھیرے میں اپنے سا ئے سے بھی دغا ملتا ہے اس وقت میرایقین کا مل ہے کہ امید کا دیا پوری شدت سے جل اٹھتا ہے اور وہ امیدوہ دیا ر ب تعالی کی ذات ہے جو خود بڑی شان سے فرما تا ہے ” اللہ کی رحمت سے ما یوس نہ ہو جا نا” گویا حالا ت جتنے بھی کٹھن ہیں۔

وقت جتنا بھی غیر موافق ہے یاد رہے کہ اس کا ئنات کے خالق نے فرما دیا کہ میری رحمت سے ہر گز ما یوس نہ ہو نا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنے رب کے بڑے شان کے ساتھ ارشاد کی گئی بات کا مان رکھیں۔ اس کی راہ پہ چلیں اور وہ کلیہ اپنا لیں جو کا میابی کی دلیل ہے اور وہ کلیہ ” اللہ تعا لی پہ تو کل ” جب بھی کو ئی معا ملہ در پیش ہو تو اسے اللہ کی ذات پہ چھوڑ دیں اور خلوص دل سے اس کی مدد طلب کر یں تو خود بخود اجا لا ہو جا ئے گا اور مشکل حل ہو تی چلی جا ئے گی ۔ انسا نی فطر ت کے مطابق اس سلسلے میں اکثر میں سو چا کر تی تھی کہ میں بھی ہر بات اللہ پہ چھوڑ دیتی ہوں مگر پھر بھی مجھے نا کا می کا سامنا ہو تا ہے تو ایسا کیوں ہو تا ہے ؟ اس سوال کا ہتھوڑا بارہا میرے دماغ کو اضطراب میں مبتلا رکھتا تھا۔

مگر جواب ندارد ۔۔پھر اس سوال کا جواب اشفاق احمد کے زاویے میںپڑ ھاجس میں یہی سوال اشفاق صاحب نے بھی کیا اس میںلکھتے ہیں کہ ” ہم اکثر معا ملا ت اللہ پہ چھوڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی بے چین رہتے ہیں ایسا کیوں ہو تا ہے ؟” پھر لکھتے ہیں کہ کسی نے بہت خوبصورت اور جا مع انداز میں جواب دیا کہ ” تم اپنے معا ملا ت اللہ پہ چھوڑ دیتے ہو مگر خود بیچ میں ہی رہتے ہو جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ معا ملہ جا نے اور اللہ جا نے”۔

ALLAH

ALLAH

یہ جواب مجھے حیرت زدہ کر گیا اور ساتھ ہی شرمسار بھی کہ حقیقت میں ایسا ہی ہو تا ہے کہ ہم ز با نی طور پر کہہ دیتے ہیں کہ اللہ جا نے اور معا ملہ جا نے مگر پھر بھی اپنے طور پہ قیاس و گمان جوڑ توڑمیںلگے ر ہتے ہیں جواباً مختلف وہم گھیر لیتے ہیں اور یہی قیاس اور وہم بد گما نی میں بدل جا تے ہیںاور اللہ سے ہمارے رشتے کو کمزور کر نے لگتے ہیں اور معا ملا ت کو مز ید الجھا دیتے ہیں ۔ ہمیں اللہ پہ تو کل کر نے کے سا تھ سا تھ اللہ پا ک کو اپنا سچا مددگار بھی ما ننا ہو گا ۔اپنی منوانے کیلئے اس کے احکامات بھی ما ننے ہوں گے ۔اور ہر مسئلے کو رب پہ چھوڑ دیں تو پھر رب جا نے اور مسئلے جا نیں وہ خود ہی جو ہما رے لئے منا سب ہو گا فیصلہ کر ے گا۔
یقین کا مل کر کے دیکھو
بد لے نہ حا لا ت تو پھر کہنا

دوسرا کلیہ اپنی ہر خواہش کو رب کی خواہش کے تا بع کر لینا اور دعا کر نا کہ وہ ہو جو اللہ چا ہتا ہے کیو نکہ اللہ جو چا ہتا ہے وہ بہتر ہو تا ہے ۔اپنی خواہش کے پیچھے ہم ساری ز ند گی گزر دیتے ہیں مگر آ خر میں معلو م ہو تا ہے کہ ہماری خواہش ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں اور پھر ز ند گی کی آخری سا عتوں میں پشیما نی کے سوا باقی کچھ بھی نہیں رہتا ۔لیکن جب زند گی میں خواہش رب کی ہو اور ہم اس پہ قنا عت کر لیں تو بے چینی اور اضطراب باقی نہیں رہتا ۔ ہاںغور و فکر ضرور کر یں اس کا حکم رب نے متعدد بار دیا تو جہ دلا ئی کہ غور کر عمل اور کو شش کرو پھر اللہ پہ چھوڑ دو اس میں کا میا بی یو ں ملتی ہے کہ بے ساختہ ز باں و دل کہہ اٹھتے ہیں” بے شک اللہ ہر چیز پہ قادر ہے”۔

زند گی بہت مختصر ہے ہمیں تجر بوں کی بھٹی سے گزرنا ہوتا ہے ہم بسا اوقات سمجھنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں ایسی دیر جس کے بعد ہا تھ کچھ بھی نہیں آ تا ۔اس لئے اپنے رب پہ پورا بھروسہ اورکا مل یقین ر کھیں پھر تجر بے سے نتیجہ اخذ کر یں مگر اس نتیجہ کا ہمیشہ مثبت پہلو سا منے ر کھیں اور پھر دیکھیں کہ رب کیا کرتا ہے ۔مگر یاد رہے کہ اپنے قیاس و گمان اپنے اندر ہی ختم کر دیں اور ان معا ملا ت پہ غالب نہ آ نے دیں جو آ پ رب کے حوالے کر چکے ہیں سو کر چکے پھر رب جا نے اور معا ملا ت جا نے۔بقول محمد بخش۔
مالی دا کم پا نی دینا ،بھر بھر مشکلا ں پا و ے
ما لک دا کم پھل پُھل لا نا ،لاوے یا نہ لا وے

Komil Saeed

Komil Saeed

تحریر : کومل سعید