کابینہ کی انرجی کمیٹی کا اجلاس، بریفنگ اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ

Prime Minister Cabinet Energy Committee meeting

Prime Minister Cabinet Energy Committee meeting

تحریر: محمد صدیق پرہار
وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ کی انرجی کمیٹی کااجلاس وزیراعظم ہائوس میں ہوا۔ سیکرٹری پانی وبجلی نے اجلاس کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ دوہزار پندرہ کا سال تکنیکی نقصان اور ریکوری کے اعتبار سے گذشتہ دس سالوں کے دوران بجلی کی پیداوار کے اعتبار سے مستحکم سال رہا اور بہترین عرصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر مانیٹرنگ اور کرپشن کے خاتمہ کی موثر حکمت عملی کی وجہ سے دوہزار پندرہ کے دوران لائن لاسزکی شرح میں پانچ اشاریہ آٹھ فیصد کمی ہوئی۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ریکوری میں ٥١ بلین اضافہ ہواجبکہ لائن لاسز میں کمی کی وجہ سے دس بلین روپے کی بچت ہوئی۔ پیداواری لاگت میں کمی سے ٥٧ ارب روپے کی بچت ہوئی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ایندھن کے ذخائر تسلی بخش مقدار میں ہیں۔ بہتر کرکردگی اور منیجمنٹ سے گذشتہ برس زیادہ سے زیادہ پیداوار ١٧ ہزارمیگاواٹ رہی۔ دوہزار پندرہ کے دوران نئے آئی پی پیز کو سہولت دی گئی جوبارہ ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکریں گے۔وزیراعظم کوان پاورپراجیکٹس کی ڈیڈلائن سے آگاہ کیا گیا جوسرما دو ہزارسولہ، موسم گرما دوہزار سترہ، موسم سرما دوہزارسترہ میں مکمل ہوں گے۔ اجلاس کو یقین دلایا گیا کہ سرمادوہزارسترہ تک قومی گرڈمیں ٩٠٩٠ میگاواٹ اضافی بجلی شامل کی جائے گی۔

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ جاری پاورپراجیکٹس مقررہ ڈیڈ لائن تک مکمل کیاجائے۔انہوںنے کہاکہ وہ خودباقاعدگی سے ان پراجیکٹس کی نگرانی کریں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا نیشنل گرڈمیں بجلی کی پیداوارمیں نمایاں اضافہ سے نہ صرف لوڈشیڈنگ میں کمی ہوگی بلکہ ملک کی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور معاشی ترقی میں مددگار ثابت ہوگی۔ توانائی کوملکی ترقی کی جان کہا جائے توغلط نہ ہوگا۔ کیونکہ آج کے جدید دور میں معاشی ترقی اور انفراسٹرکچر کی بہتری کا دارومدار توانائی کی دستیابی پر ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک بہت سے بحرانوں میں گھرا ہوا تھا۔ نواز شریف کی نئی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا۔ ان میں سے دو چیلنجز سب سے زیادہ توجہ کے متقاضی تھے۔ان میں سے ایک چیلنج ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ تھا جبکہ دوسرا چیلنج توانائی کے بحران کوختم کرنا تھا۔ دونوں چیلنجز ایک دوسرے سے بڑھ کرسنگین تھے۔ دونوں چیلنجز سے نبردآزما ہوئے بغیر ملک میں ترقی کے سفر کو مطلوبہ رفتار میں بڑھایا نہیں جا سکتا تھا۔ بعض تجزیہ نگار اپنا تجزیہ کررہے تھے ان چیلنجز میں سے کس چیلنج سے حکومت کو پہلے نمٹنا چاہیے اور کیوں۔ نواز شریف کی حکومت نے دونوں چیلنجز سے نمٹنے کا فیصلہ کر کے اقدامات شروع کر دیے۔ توانائی بحران کاخاتمہ حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔

نواز شریف کی حکومت نے ملک سے بجلی کے بحران کوختم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار میں اضافہ پر توجہ دی۔ چین سمیت متعدد ممالک سے بجلی کے پیداواری منصوبوں کے حوالے معاہدے کیے۔ ان منصوبوں میں پانی، ہوااور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ ان میں سے کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ کچھ منصوبوں سے پیداوار کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ جس سے ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہواہے۔ لوڈشیڈنگ میں کمی آئی ہے۔ نوازشریف حکومت کی توجہ توانائی بحران کے خاتمے کے ساتھ ساتھ کم سے کم اخراجات پربھی توجہ ہے۔اس لیے بجلی کے پیداواری منصوبوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ پیداواری لاگت کم سے کم آئے۔اس سے نہ صرف قومی خزانے پربوجھ کم پڑے گابلکہ صارفین کو سستی بجلی فراہم کی جاسکے گی۔

Electricity

Electricity

وزیراعظم کی زیرصدارت کابینہ کی انرجی کمیٹی کے اجلاس میں اس حوالے سے کئے گئے اقدامات پرپیشرفت کاجائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کو دی گئی بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حوالے سے بہتری توآئی ہے تاہم ابھی بھی بہت ساکام کرناباقی ہے۔ اس بریفنگ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت کی توجہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ تکنیکی نقصانات میں کمی اور ریکوری میں اضافے پر بھی ہے۔ اس حوالے سے سال دوہزارپندرہ کو گذشتہ دس سالوں میں سے بہترین سال قرار دیا گیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت بجلی کے بحران کے خاتمہ کے حوالے سے تمام پہلوئوں پر کام کر رہی ہے۔ ایک تو ملک میں بجلی کی کم پیداوار کی وجہ سے شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا لائن لاسزکی وجہ سے یہ بحران اوربھی شدید ہوگیا تھا۔ اس بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ لائن لاسزکی شرح میں پانچ اشاریہ آٹھ فیصد کمی ہوئی۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنی بجلی لائن لاسز کی نذر ہو جاتی تھی اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ لائن لاسزمیں کمی کی وجہ سے قابل استعمال بجلی میں کتنااضافہ ہوا ہے۔ تاہم گذشتہ سال میں اس حوالے سے جو کمی آئی ہے۔

حکومت کے اس حوالے سے اقدامات جاری رہے تورواں سال اس نقصان میںمزیدکمی آئے گی۔امیدکرنی چاہیے کہ ایک سال وہ بھی آئے گا کہ لائن لاسزماضی کاحصہ بن جائیں گے۔وزیراعظم نوازشریف کودی گئی بریفنگ کے مطابق ریکوری میں اضافے، لائن لاسزاورپیداواری لاگت میںکمی کی وجہ سے قومی خزانے کوایک سواٹھارہ بلین روپے کافائدہ ہوا۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ سال دوہزارپندرہ میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوارسترہ ہزارمیگاواٹ رہی۔ جویہ ظاہرکررہی ہے کہ گذشتہ سال بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کوبجلی کے پیداواری منصوبوںکی مدت تکمیل سے بھی آگاہ کیا گیا۔ سال ددہزار پندرہ کے دوران نئے آئی پی پیز کو سہولت دی گئی جو بارہ ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ اس سے راقم الحروف یہ نتیجہ اخذ کر سکا ہے کہ نئے آئی پی پیز کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں بارہ ہزارمیگاواٹ کا اضافہ ہوگا۔ اس بریفنگ میں یہ خوشخبری بھی سامنے آئی ہے کہ ایندھن کے ذخائر تسلی بخش مقدار میں ہیں۔ ایندھن کے ذخائر میں کمی بجلی کی پیداوار میں اضافے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

اب یہ رکارٹ بھی ختم ہوگئی ہے۔اب کم سے کم ایندھن کی وجہ سے بجلی کی پیداوار متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ ایک طرف بریفنگ میں خوشخبریاں سنائی جارہی ہیں کہ ایندھن کے ذخائر تسلی بخش مقدارمیں ہیں۔ لائن لاسزاورپیداواری لاگت میںکمی آئی ہے۔دوسری طرف اخبارات کچھ اورکہانی پڑھارہے ہیں۔ ایک قومی اخبارمیں سخی سرورسے خبر ہے کہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے بجلی نہ ہونے سے مکین پینے کے پانی سے محروم ہوگئے ہیں۔ایک اورقومی اخبارمیں کوٹ ادو، کوٹ سلطان، دنیا پوراور ہیڈ پنجند سے خبر ہے کہ لائن لاسز پورے کرنے کیلئے بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہمارے شہرلیہ میں بھی سردی میں کمی اور موسم میں تبدیلی آتے ہی لوڈشیڈنگ میںا ضافہ ہوچکا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کی انرجی کمیٹی کے اجلاس میں ریکوری میں اضافے، لائن لاسزاورپیداواری لاگت کے بارے میں تو بتایا گیا کہ اس حوالے سے سال دوہزارپندرہ میں وزارت پانی وبجلی کی کیا کارکردگی رہی۔

Electricity output

Electricity output

اس بریفنگ میں یہ بتایاگیا کہ سال دوہزارپندرہ میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوارکتنی رہی۔تاہم اس بریفنگ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گذشتہ سال بجلی کی پیداوار میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدارسنبھالا ہے اب تک قومی گرڈمیںکتنی اضافی بجلی شامل کی گئی ہے۔بریفنگ میں بجلی کے پیداواری منصوبوںکی آخری مدت تکمیل جوبتائی گئی ہے وہ سال دوہزارسترہ کاموسم سرمابتایا گیا ہے۔اب اس مدت تکمیل میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اب بریفنگ میں بتائی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق بجلی کے جو منصوبے سال دوہزار سترہ کے موسم سرمامیں مکمل ہوں گے۔ ایک ڈیڈ لائن موسم گرما سال دوہزارسولہ بتائی گئی ہے وہ توسمجھ میں آتی ہے کہ یہ منصوبے اپریل دوہزارسولہ سے اگست یاستمبردوہزارسولہ کے دوران ہی مکمل ہوں گے۔کیونکہ اپریل سے ستمبرتک گرمی رہتی ہے۔اب یہ جوڈیڈلائن بتائی گئی ہے کہ بجلی کے کچھ پیداواری منصوبے سال دوہزار سترہ کے موسم سرمامیں مکمل ہوں گے۔

یہ ڈیڈ لائن ہماری سمجھ میں نہیں آرہی۔قارئین سمجھنے کی کوشش کریںشایدانہیں سمجھ آجائے جب ہم وضاحت کریں گے تویہ ڈیڈ کسی کوبھی سمجھ نہیں آئے گی۔وزیراعظم نوازشریف کواس ڈیڈ لائن کی سمجھ آئی ہے تووہ اس سلسلہ میں قوم کی راہنمائی کر دیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سوں کے نزدیک اس ڈیڈلائن کو سمجھنا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوکہ سال دوہزار سترہ کے موسم سرمامیں یہ منصوبے مکمل ہوجائیں گے۔ان کے نزدیک اس میں نہ سمجھنے والی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔اب آپ کوبتادیتے ہیں کہ ہمیں اس ڈیڈ لائن کی کیوں سمجھ نہیں آرہی۔ جویہ سوچ رہے ہیں کہ اس ڈیڈلائن کو سمجھنا کوئی مسئلہ نہیں ہماری وضاحت کے بعدوہ بھی ہماری طرح الجھن کا شکار ہو جائیں گے۔ سال دوہزار سولہ ہویاسترہ یہ شمسی سال ہیں قمری نہیں۔ شمسی سال یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے اوراکتیس دسمبرکوختم ہوجاتا ہے۔پاکستان میں چارموسم پائے جاتے ہیں اور ہر موسم تین ماہ پرمحیط ہوجاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے موسم گرماطویل ہوجاتا ہے۔اب پاکستان میں سردیاں نومبرسے فروری تک پڑتی ہیں۔جس طرح اصل موسم گرماجون سے اگست تک ہے اسی طرح اصل موسم سرما دسمبر سے فروری تک ہے۔ اس کواس طرح سمجھ لیں موسم سرماایک سال کے د سمبرسے شروع ہوتا ہے اور دوسرے سال کے ماہ فروری میں ختم ہوجاتا ہے۔یوں پاکستان میںجب شمسی سال شروع ہوتا ہے اس وقت بھی موسم سرماہوتا ہے اورجب یہ شمسی سال ختم ہوتا ہے اس وقت بھی موسم سرماہوتا ہے۔اب قارئین کو ہماری الجھن کی وجہ سمجھ آگئی ہوگی۔کہ موسم سرمامیںمکمل ہونے والے منصوبے کب مکمل ہوں گے ۔اب ہمیں وہ بھی نہ سمجھ لینا کہ جس نے اسٹیشن بابوسے پوچھا کہ تین بجے والی ٹرین کب آئے گی تواسٹیشن بابونے کہا کہ دوبج کرساٹھ منٹ پرآئے گی۔اس شخص نے کہا کہ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ ٹرین وقت پرنہیں آئے گی۔اب یہ منصوبے جنوری دوہزارسترہ میں مکمل ہوں گے یاد سمبر دوہزار سترہ میں ۔ بجلی کے منصوبوں کی مدت تکمیل دوہزارکاموسم سرما بتایا گیا ہے۔

Load shedding

Load shedding

جس کا مطلب ہے کہ اس سال بھی گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدارسنبھالا ہے عوام اس انتظارمیں ہیں کہ وہ دن کب آئے گا جب حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کاوعدہ پوراکرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ موجودہ دورحکومت میں چوتھا موسم گرما آرہا ہے ۔یہ موسم گرمابھی صاف نظرآرہا ہے کہ لوڈشیڈنگ میں ہی گزرے گا۔اس موسم گرمامیںبھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ گذشتہ سال کے موسم گرما کی طرح ہی رہا توعوام کے غصہ کوکنڑول نہیں کیا جاسکے گا۔ اب عوام سے صبرنہیں ہوسکے گا۔اب تووہ لوگ بھی کچھ نہیں کہہ سکیں گے جویہ کہہ کرعوام کوتسلیاں دیتے رہتے تھے کہ بجلی کے منصوبوںپرکام جاری ہے یہ لوڈشیڈنگ اب جلدہی ختم ہوجائے گی۔عوام کہیں گے کہ اب تک لوڈشیڈنگ کیوں باقی ہے ۔تسلیاں دینے والوںکے پاس اب کوئی جواب نہیںہوگا۔اس سے حکومت کی ساکھ اورمقبولیت پربھی منفی اثرپڑنے کاخدشہ ہے۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جس طرح بھی ہوگرمیوںمیں لوڈشیڈنگ چوبیس گھنٹوں میں چارگھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی ایک وقت میں ایک گھنٹہ سے زیادہ غائب نہ رہے۔

ایسا اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ سرکاری، نجی دفاتر، کاروباری اداروں ، مارکیٹوں، بازاروں میں ایئرکنڈیشنڈ کے استعمال پرپابندی لگادی جائے۔ بلکہ اے سی کی خریدوفروخت پرہی پابندی لگادی جائے۔ہسپتالوںمیں صرف ایسے مریضوں کے کمروںمیںاس کی اجازت ہونی چاہیے جن مریضوں کیلئے اے سی چلاناضروری ہو۔ دفاتر، مارکیٹوں، بازاروںمیں ایئر کولر استعمال کیے جائیں ۔عوام بھی بجلی بچانے میں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ کابینہ کی انرجی کمیٹی کے اجلاس اوراس میںدی گئی بریفنگ سے یہ بات توواضح ہوتی ہے کہ حکومت پاکستان ملک سے بجلی کابحران ختم کرنے کیلئے کتنی سنجیدہ ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کوبجلی نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی مشکلات کا احساس ہے کہ انہوںنے بجلی کے پیداواری منصوبوں کی خودنگرانی کرنے کااعلان کیا ہے اوران منصوبوں کو مقررہ مدت میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔تاکہ غیرضروری تاخیر اور غیرضروری اخراجات سے بچاجاسکے اور عوام کو جلد سے جلد لوڈشیڈنگ سے چھٹکارہ دلایا جاسکے۔

کمشنر ڈیرہ غازیخان کا نام درست نہیں ہے شایدان کی توجہ اس جانب کسی نے دلائی۔ جو نام ان کا ہے مدینہ منورہ کا پہلا نام بھی وہی تھا اسے سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بدل دیا تھا۔ہمارے پاس جوڈکشنری ہے اس میں اس لفظ کے معنیٰ بیماریوں کا گھر لکھے ہوئے ہیں۔ کمشنر ڈیرہ غازیخان کے نام کامکمل ترجمعہ کیاجائے توتوہین رسالت لاگوہوجائے گی۔اس لیے ان سے اس تحریر کے توسط سے گذارش ہے کہ وہ اپنانام تبدیل کر لیں۔ مزید راہنمائی کیلئے علماء کرام سے رابطہ کر لیں۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com