بچوں کے حقوق اور دینی تعلیم

Universal Children's Day

Universal Children’s Day

تحریر: محمد عثمان عطاری
پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کا دن ”یونیورسل چلڈرن ڈے” منایا تو جاتا ہے مگر بچوں میں دینی رغبت، مفادات کا تحفظ اور انہیں بلا امتیاز زندگی میں آگے بڑھنے کے مساوی مواقع فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس طرح تشدد سے پاک معاشرے کا قیام اور بچوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہرممکن کوششیں ہونی چاہئیں کہ انہیں دینی تعلیم دی جائے جس سے نہ صرف ان کے کردار کی تعمیر ہوسکے بلکہ وہ معاشرے کا بہترین شہری بن سکیں۔

اسی طرح دینی تعلیم اُن کی آخرت میں کامیابی کا بھی ذریعہ بن سکے گی۔جہاں تک بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کا تعلق ہے تو اس کے لئے شعور بیدار کرنے اور افہام و تفہیم پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔مقص دبچوں کی زندگیوں کو اسلام کے رنگ میں ڈھالنا مقصود ہے۔

1953 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے طے کیا کہ پوری دنیا یہ دن منائے چنانچہ دنیا کی ایک سو بیس سے زائد قومیں ہر سال 20 نومبر کو یہ دن اپنے اپنے انداز میں مناتی ہیں مگر کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک غریب جو پاکستان کی کل آبادی کا ستر فیصد ہیں، ان میں سے صرف تیس فیصد کے بچوں کو پرائمری تعلیم تک دسترس حاصل ہے۔بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ اس کے بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر پوری توجہ دی جائے۔

Children's Rights

Children’s Rights

یہ اَمر اْس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک بچوں کے حقوق کا واضح تصور اور ان حقوق کے اِحترام کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو۔ اِسلام نے دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کے حقوق کو بھی پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ہمارے ہاں اکثر یہ شکایات بھی ملتی ہیں کہ بعض تعلیمی اداروں میں اسکول کے اساتذہ اور دوسرا اسٹاف بچوں سے ایسا سلوک روا رکھتا ہے جس کی بدولت کچھ بچے تعلیم سے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں۔ تعلیم سے دوری اور خراب معاشی حالات انہیں کمسنی سے ہی کام کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

اسی طرح اکثر دیکھنے کو یہ بھی ملتا ہے کہ کام کرنے والے بچوں میں کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کر مختلف چوراہوں پر بھیک مانگتے ہیں۔گداگر ان بچوں کو آگے کر کے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں۔ یوں تو بچوں کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، مگر امیروں اور غریبوں کے بچوں میں بڑھتا ہوا فرق کم کرنا سبب سے اہم ضرورت ہے۔ غریب بچے کو بھی اسکول بھیجنے، اس کو صحت اور صفائی کی سہولیات فراہم کرنے، اور صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے نہ صرف حکومت بلکہ فلاحی اداروں کو زیادہ موثر کردار اداکرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والے برسوں میں آبادی کا بڑا حصہ معاشرے میں مفید اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لائق ہو سکے۔

بچوں کی تعمیر اور دینی حوالے سے دعوت اسلامی اپنا کردار بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ ملک بھر میں دعوت اسلامی کے 2ہزار مدرسة المدینہ میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد بچے دینی تعلیم کے ساتھ ناظرہ و حفظ قرآن کررہے ہیں ۔جن میں ملک بھر سے 4200 طلباء اس سال حفظ قرآن مکمل کر چکے ہیں۔ دعوت اسلامی کے بچوں اور بچیوں کے جتنے بھی مدارس ہیں وہاں پر دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور نصابی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

Religious Education

Religious Education

ضروریات دین کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت و تجارت کورسز کا اجراء بھی کیا گیا ہے۔ مفتی کورس کے علاوہ متعدد علماء کرام افتاء کی تربیت اور مخصوص علمی فن کی مہارت بھی کی جاتی ہے۔ دارالمدینہ ایک سکولنگ سسٹم ہے جہاں پر دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصر حاضرکے تقاضوں سے مطابق جدید انگریزی و سائنسی علوم بھی پڑھاتے ہیں جو موجودہ مشہور اور رائج ایجوکیشن سسٹم کے کہیں بہتر ہے اورسکولوں کا دائرہ ملک کے طول و عرض میں پھیل رہا ہے۔

کس قدر افسوسناک امر ہے کہ اول تو بچوں کو شہر کے بڑے انگلش میڈیم سکول میں کروایاجاتا ہے جہاں دینی تعلیم کا دور دور تک تعلق نہیں ہوتا اور پھر بھی ہم بہت زیادہ کوشش کر کے بچوں کو روزانہ آدھے گھنٹے سپارہ پڑھانے کے لئے کسی کی خدمات حاصل کرلیتے ہیں اور اس بات پر شاکر ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے بچو ں کو دینی تعلیم دلوا رہے ہیں۔حیرت ہے۔ دنیا کی تعلیم کے لئے تو پورا دن اور دین کی تعلیم کے لئے صرف آدھا گھنٹا؟اور دین کی تعلیم بھی کیسی کہ صرف قرآن پڑھنے کا تلفظ درست کروادیا ، اللہ اللہ خیر سلا۔نہ بچے کو توحید کا علم اور نہ ہی آخرت کی خبر۔ نہ اسے اچھے اخلاق کی تربیت اور نہ ہی اچھا مسلمان بننے کی ترغیب”۔ہ آج ہر گھر کا المیہ ہے۔

Quran

Quran

جب ایک بچے کا سارا وقت دنیا کی تعلیم پر صرف ہوگا تو نتیجہ بھی دنیا پرستی ہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔ چنانچہ اس بچہ کی منزل ایک عالیشان مکان، چمچماتی کار،بھاری بنک بیلنس، پرکشش اسٹیٹس اور اعلیٰ میعار زندگی نہیں ہوگی تو کیا ہوگی۔ ایک دنیا داری کی تربیت پانے والے بچے سے یہ تقاضا کرنا فضول ہے کہ اس کے دل میں تقوٰی کی آبیاری ہو، وہ خوف خدا سے لرز اٹھے، وہ رات کو اپنے رب کے حضور رقت کے لمحات گذارے اور دن میں خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرے آج کل دینی تعلیم محض ظاہر کے چند عقائد کو ازبر کرانے اور قرآن کی تجوی تعلیم دینا رہ گیا ہے۔

تحریر: محمد عثمان عطاری