سرحدوں کا محافط کبھی غدار نہیں ہوتا

Pakistan

Pakistan

ایک شخص جو اپنا بچپن، اپنی جوانی، اپنا بڑھاپا سب پاکستان کے لیئے۔ نچھاور کر دیتا ہے۔ پتہ بھی نہیں چلتا کب جوانی گئی اور کب بڑھاپا گیا اور جب وہ اپنے تمام تر مقاصد میں کامیابی پاتا ہے تو اس کی ریاست اسے غدار کہتی ہے۔ آئیں اُس شخص کے بارے میں مزید تفصیل سے جانتے ہیں کہ اُس کو کس جُرم کی پاداش میں غدار کے لا یعنی لقب سے نوازا گیا۔ ان کا نام جنرل (ر) پرویز مشرف ہے اُنہوں نے 11 اگست1943ء کو دلی میں سید مشرف الدین کے گھر میں آنکھ کھولی۔

پرویز مشرف (Civil Servant) کے ایک خاندان میں پلے بڑھے۔ ان کے والدِ محترم سید مشرف الدین پاکستان کی (Foreign Service) کے ایک رکن تھے اور بعد میں خارجہ امور کے سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی والدہ محترمہ زرین یونائٹڈنیشنز آرکنائزیشن (United Nations Org) کی تنظیم کے لیئے کام کیا۔ پاک بھارت تقسیم کے بعد ان کے والد محترم اپنی بیوی اور تین بیٹوں (پرویز مشرف، جاوید اشرف، نوید اشرف) سمیت دلی انڈیا سے پاکستان منتقل ہو گئے۔ پرویز مشرف نے کراچی میں Partick’s school St. میں داخلہ لیا اور 1958ء میں گریجوایشن کرنے کے بعد فورمین کرسچن کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ 1961ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شامل ہوئے اور ان کی کلاس میں گیارویں کریجوایشن کی۔ اپریل 1964ء میں ایک (Artillary Regiment) سے Commissioned کرنے کے بعد سپیشل سروس گروپ (SSG) میں شامل ہوگئے اور کمانڈر اینڈ سٹاف کالج اور پاکستان میں نیشنل ڈیفنس کالج میں اپنی فوجی تعلیم بھی جاری رکھی اور برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سے بھی تعلیم حاصل کی۔

جنرل پرویز مشرف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965ء میں ہونے والی جنگ میں حصہ لیا اور اسی بھارت کے خلاف 1971ء کی جنگ میں انہوں نے سپیشل سروسز گروپ کمانڈو بٹالین Battialian) (کے طور پر خدمت سر انجام دی۔ جنرل(ر) پرویز مشرف 1998ء میں جنرل اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کو 12 اکتوبر1999ء کو معزول کر کے فوجی قانون نافز کر دیا۔ 20 جون 2001 ء کو ایک صدارتی استصواب رائے کے ذریعے پرویز مشرف نے صدر کا حلف اٹھاتے ہوئے پاکستان کے 10 ویں صدر بنے۔

 Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

ویسے تو جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں بہت سے جرم کیئے ان کے جرائم کی فہرست طویل ہے لیکن موجودہ حکومت اور قارئین کی آگاہی کے لیئے چند جرائم کی نشاندہی کررہا ہوں تاکہ اس غدارکوواقعی ، قرار واقعی سزا دی جا سکے۔
١۔ مشرف نے اپنی پوری عمر پاکستان کے لیئے وقف کردی پوری زندگی پاکستان کے لیئے لڑتا رہا اور جب اقتدار سنبھالا تب بھی ایک عام آدمی کی ضروریات کا خیال رکھا۔
٢۔ مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان دنیا میں بینکاری پر تیسرے نمبر پر آگیا تھا۔
٣۔ مشرف کے دور میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا سیلاب آیا۔2 بلین روپے سالانہ منافع آتا رہا اور 90000/- لوگوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نوکریاں دی گئیں۔
٤۔ سی این جی سیکٹر کو بے پناہ ترقی ملی تقریباََ 70 بلین کی سرمایا کاری کی گئی اور سی این جی کے سیکٹر میں 45000 نوکریاں دی گئیں
٥۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انڈسٹریل پارکس کا قیام عمل میں آیا۔
٦۔ سیندھک، ریکوڈک، ماربل انڈسٹری، کان کنی اور کوئلے کے ذخائر کے بڑے پراجیکٹ شروع کیئے گئے۔
٧۔ ٹیلی کام سیکٹر میں 10 ملین کی سرمایہ کاری کی گئی۔ سرمایہ کاری ملک میں آئی جس کی وجہ سے 13 لاکھ لوگوں کو نوکریاں دی گیئں
٨۔ زر مبادلہ میں 700 ملین سے 17 بلین تک کا اضافہ ہوا۔
٩۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کراچی سٹاک مارکیٹ 700 سے 15000 پوائنٹس پر جا پہنچی۔
١٠۔ شرح خواندگی میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔
١١۔ میرانی ،سبکزئی، گومل زام، خرم اور تنگئی ڈیم کا قیام عمل میں آیا۔
١٢۔ 7 موٹر ویز پر کام شروع کیا گیا جس میں سے کچھ مکمل ہو گئیںاور کچھ پہ کام جاری ہے۔

١٣۔ غربت میں 10% فیصد تک کمی۔
١٤۔ گوادر بندر گاہ کا قیام، جس سے پاکستان میں بے شمار سرمایہ آنے کا موقع ملا۔
١٥۔ 650 کلومیٹر طویل مکران کوسٹل ہائی وے کا قیام۔
١٦۔ ٹیکس وصولی کا تاریخی 100کھرب کا سنگ میل عبور کر کے ریکارڈ قائم کر دیا۔
١٧۔ بڑے بڑے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا گیا جو آنے والے 30 سالوں تک پاکستان کو فائدہ دیتے رہیں گے۔
١٨۔ چاغی میں تانبہ اور سونے کے ذخائر کی دریافت، اگر ان کو فروخت کیا جائے تو سالانہ 8650 $ ملکی خزانے میں شامل ہو سکتے ہیں۔
١٩۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر ایک نئی آئل ریفائنری کا قیام، جس سے روزانہ 300000 بیرل تیل صاف کیا جاتا ہے۔
٢٠۔ پاکستان معیشیت کے حوالے سے دنیا میں تیزی سے بڑھنے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آگیا۔
٢١۔ انڈسٹریل سیکٹر کی ترقی میں سا لانہ 26 فیصد اضافہ ہوا۔
٢٢۔ انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کا قیام جن سے پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا۔
٢٣۔ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ کا قیام۔
٢٤۔ بنوں میں یونیورسٹی آف سائنس انیڈ ٹیکنالوجی کا قیام۔
٢٥۔ ہزارہ میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
٢٦ چکدرہ میں مالا کنڈیونیورسٹی کا قیام۔
٢٧۔ یونیورسٹی آف گجرات کا قیام۔
٢٨۔ ورچوئل یونیورسٹی کا قیام۔
٢٩۔ سرحد یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالونی کا قیام۔
٣٠۔ اسلام آباد میں میڈیا یونیورسٹی کا قیام۔
٣١۔ لاہور میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام۔
٢٣۔ لسبیلہ میں یونیورسٹی آف برین سائنسز بلوچستان کا قیام۔
٣٤ 2007ء میں جی،ڈی۔پی، (پی پی پی) 47505 بلین ڈالر۔
٣٥۔ 2002ء میں بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالونی کا قیام۔
٣٦۔ 2007ء میںفی کس امدنی $ 100 سے زائد۔
٣٧۔ 18.5 بلین ڈالر کی بر آمدات۔
٣٨۔ 2007 ء میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1000.2 بلین مالیت کے ریونیو کی وصولی ہوئی۔

٣٩۔ 2007 ء میں ملکی براہ راست سرمایا کاری کا حجم 8.5 بلین ڈالر تھا۔
٤٠۔ 2007 ء میں ڈیبٹ سروس جی ڈی پی کے 26 فیصد رہی۔
٤١۔ 2007 ء میں غربت کی شرح 26 فیصد تھی۔
٤٢۔ 2007 ء میں شرح خواندگی 53% تھی۔
٤٣۔ 2007 ء میں ملکی ترقی کا حجم 520 بلین ڈالر تھا۔
٤٤۔ پاکستان میں اس وقت 245,682 تعلیمی ادارے ہیں جن میں 164,579 پبلک سیکٹر جبکہ81,103 پرائیویٹ سیکٹر کے ہیں۔
٤٥۔ اس وقت تقریباََ 5000 پاکستانی غیرملکی یونیورسٹیز میں PHD کر رہے ہیں۔ 300 پاکستانی ہر سالPHD مکمل کر رہے ہیں۔ جب کہ 1999ء میں صرف بیس لوگ سالانہ PHD کرتے تھے۔
٤٦۔ 2007 ء میں کراچی سٹاک ایکسچینج 7 بلیین کے ذخائر اور 15000 پوائنٹس عبور کر گئی۔
٤٧۔ پرویز مشرف نے پاکستان کی مسجد ضرار دہشت گردوں سے خالی کروائی۔

٤٨۔ ملک میں رہ کر اپنی ریاست قائم کرنے والے دہشت گرد اکبر بگٹی کا نام و نشان ہمیشہ کے لیئے مٹا دیا۔

٤٩۔ ہر دیہات میں بجلی کی فراہمی کو یقینی نبا کر دیہاتیوں کے دل موہ لیئے۔

Supreme Court

Supreme Court

٥٠۔ آخر میں جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال دیکھ کر خود پاکستان واپس لوٹے اور خود کو احتساب کے لیئے عدالتوں کے سامنے پیش کیا اور ہر مقدمے سے بری ہوئے۔ تو حکومت نے ذاتی رنجش کی بناء پر اس پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا۔ واضع رہے کہ سرحدوں کا محافظ غدار نہیں ہو سکتا۔ اسے غدار کہنے والے اپنی گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کریں کہ غدار کون ہے؟ موجودہ حکمرانوں کے لیئے کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ:

ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہو گا

تحریر : سید مبارک علی شمسی
ای میل mubarakshamsi@gmail.com