اب وہ عدالتیں نہیں جو سلطان اور مغلوں کے دور میں تھیں، سپریم کورٹ

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) تلور کے شکار پر پابندی کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ اب وہ عدالتیں نہیں رہیں جو سلطان اور مغلوں کے وقت میں تھیں، عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی ہیں۔

سپریم کورٹ میں تلور کے شکار سے متعلق کیس میں جسٹس ثاقب نثارنے مزید کہا کہ آئین کے آرٹیکل 4 کو بہت اہمیت حاصل ہے، یہ عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی ہیں، اگر قانون میں تلور کے شکار کی اجازت ہے تو عدالت اس کے خلاف نہیں جائے گی۔ جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس تلورکے شکار پرپابندی سے متعلق وفاق سمیت دیگر درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران دیئے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔حکومت سندھ کے وکیل فاروق ایچ نائک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شکار کا لائسنس جنگلی حیات کے تخفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا گیا، سندھ وائلڈ لائف کے قانون میں شکار کی مکمل پابندی نہیں، جبکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے مکمل پابندی لگا دی، عدالت کے سامنے معاملہ یہ ہے کہ تلور کو حفاظت دینے کے بجائے شکار کے کھیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، صوبائی وائلڈ لائف ایکٹ کے مطابق صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ شکار کے کھیل کے لائسنس جاری کرے،تلور شکار کے کھیل کا پرندہ ہے، اس کی نسل کو کوئی خطرہ نہیں، تلور کے شکار کے لیے ضابطہ اخلاق بنا ہواہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا اس ضابطہ اخلاق کو قانون کی سپورٹ حاصل ہے؟ اس پر فاروق ایچ نائک نے جواب دیا کہ نہیں قانون کی سپورٹ حاصل نہیں لیکن انتظامی اتھارٹی نے ضابطہ اخلاق جاری کیاہے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اگر کسی انتظامی اتھارٹی کو قانون کی سپورٹ حاصل نہیں تو اسکی قانونی حیثیت بھی نہیں۔ فاروق ایچ نائک نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو حق تفویض کیا گیا ہے، اس پر قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر صوبوں کو حق دیا گیا ہے تو وزارت خارجہ نے کس حیثیت میں نوٹیفیکشن جاری کیا؟

جسٹس ثاقب نثار نے کہا قانون ہے تو نوٹیفیکیشن کی اہمیت ہے، قانون نہ ہو تو ہر کسی کو شکار کی عام اجازت ہوتی، قانون کے مطابق صوبائی حکومت نے دیکھنا ہے کہ کونسے پرندے شکار کے لیے ہیں اور کونسے نہیں۔

فاروق ایچ نائک نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ انٹرنیشنل لاء کی توثیق کرتی ہے تو انٹرنیشنل لاء نہیں تو مقامی قانون پر عمل درآمد ہو گا، انٹرنیشنل قوانین کے مطابق بھی تلور کے شکار پر کوئی پابندی نہیں، یہ پرندے قازقستان اور ایران سے پاکستان آتے ہیں اور ان ممالک کے ساتھ تلور کی حفاظت کا کوئی معاہدہ نہیں، یہ پرندے اب انڈیا جاتے ہیں جہاں عرب شیخ ان کا شکار کرتے ہیں اور وہاں ترقیاتی کام ہوتے ہیں، تلور کا شکار ایران، مصر اور بھارت میں بھی ہوتا ہے، بھارت نہیں چاہتا کہ عرب شیخ پاکستان شکار کے لیے آئیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انڈیا میں تلور ہجرت کر کے نہیں جاتے بلکہ مقامی پیداوار ہے، جو آپ نے کہا کہ بھارت کی سازش ہے تو ایسے بیان بغیر دستاویزی ثبوت کے مت کریں،ایسی بیان بازی کے لیے ٹی وی ٹاک شوز موجود ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالت پالیسی میٹرز میں مداخلت نہیں کرسکتی،جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اگر پالیسی میٹرز میں کسی کا ذاتی مفاد ہو تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے،جہاں شکار کیا جاتا ہے کیا وہاں کوئی مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاآپ کا کہنا ہے کہ تلور کا شکار صوبے کا معاملہ ہے وفاق کا نہیں ،اگر ایک صوبہ تلور کے شکار کا مقابلہ کرتا ہے کہ زیادہ تلور کس نے شکار کیے تو کیا قانون میں اس کی اجازت ہے؟

فاروق ایچ نائک نے دلیل دی کہ جی قانون میں صوبے کو حق حاصل ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جب سب پرندے شکار کے لیے ختم ہو جائیں گے اور آخری پرندہ رہ جائے گا تب کیا کریں گے؟ تب بین الاقوامی اعلیٰ مہمانوں کو شکار کے لیے کیا دیں گے؟ مجھے کنفیوژن ہے کہ جو قانون ہم بنا رہے اس کی کوئی اہمیت بھی ہے کہ نہیں۔

دیگر درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ علی ظفر پیش ہوئے ،جنہوں نے دلائل میں کہا کہ ترقی پزیر ممالک میں اگر مکمل پابندی لگائی تو کرپشن بڑھے گے، رحیم یار خان، ڈی جی خان اور خان پور میں مقامی لوگوں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپکی درخواستیں 184/3 کے تحت ہیں ان کو نظرثانی اپیل سے الگ بھی سنا جا سکتا ہے۔ عدالت نے درخواست گزاروں کے وکلاء کو کل تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔