درویش کی باتیں

Dervish's talk

Dervish’s talk

تحریر: ایم سرور صدیقی
درویش کے گرد آج بھی لوگوں کا ہجوم تھا کتنے ہی عقیدت سے بھلائی اور دانائی کی باتیں سن کر سرہلارہے تھے درویش کے چہرے پر عجب نور تھا۔۔۔ کشش بھی انوکھی بعض اوقات وہ اپنی گفتگو میں ذہنوںمیں امڈتے سوال خود بیان کردیتا تو کئی حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگتے جب انہی سوالوں کے جواب ملتے تو گویا تسلی و تشفی ہو جاتی اس روز ۔۔۔کسی نے سوال کرڈالا بابا جی!جہالت کیاہے؟۔۔۔درویش نے چونک کر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا۔۔۔ہونٹوںپر مسکراہٹ پھیلی اور ترت جواب دیا اپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔۔۔ہم دیکھیں غورکریں تو احساس ہوگا اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ جاہلوںسے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کی قیامت خیزترقی، نت نئی ایجادات،شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتاہوارحجان، حالات اور ذہنوںمیں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا یعنی لوگ اپنی غلط بات پر اصرارکرتے نظرآتے ہیں اس صورت ِ حا ل میں کبھی کبھی دل چاہتاہے غالب کے شعرکومستقل ایسے لکھا اور پڑھا جائے

”جاہلوں”کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں
عالم ِ اسلام کوجس خوفناک عفریت کا سامناہے اسے جہالت کے نام سے ہی تعبیر کیا جا سکتاہے اسی وجہ سے مسلمان علمی میدان میںتنہاہوتے جارہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ ہم کیسے مسلمان ہیں ؟جنہیں مومن کی گمشدہ میراث ۔۔۔ تلاش کرنے کاہی ادراک نہیں ہے پاکستان میں خود کش حملے، بم دھماکے،دہشت گردی اور انتہا پسندی سب کا سب جہالت کا شاخسانہ ہے قرآن مجیدکی آیات کے مطالب اپنے مقصدکیلئے استعمال کرنا، اسلام کو دکانداری بنا لینا،غلط تشریح کرنا یہ جہالت کی علامت ہے اور اسی جہالت نے اسلام کو ناقابل ِ تلافی نقصان ہورہاہے دنیا میں آدھے مسائل کی بنیادجہالت ہے پاکستان میں تو ان پڑھ مولوی اورجاہل دانشوروںنے اندھیر مچارکھاہے یہ اندھوںمیں کانے راجہ بن کر جو دل چاہے کرتے پھرتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔

سومئی تقدیرسے کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو کفرکے فتوے اورتبرے لحدتک پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔درویش تو سچ ہی کہتے ہیں انہیں کسی کی ناراضگی کا ڈرجونہیں ہوتااس درویش نے بھی سچ ہی کہا تھااپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔۔اپنے ادھرادھر نظر دوڑائیے۔من کو ٹٹول کردیکھیںیانام نہاد بڑے بڑے دانشوروںکو دیکھئے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوگی کہ وہ اپنی غلط بات پر اصرارکریں گے اور اس کے حق میں بے سروپا دلیلیں،عجیب و غریب باتیں کریں گے کسی نے تنقیدکی وزیر ِ اعظم میاںنواز شریف چین تو معاہدے کرنے گئے تھے جرمنی کیوں چلے گئے وہاں تو کوئی کام ہی نہ تھا؟۔۔ایک وزیر جو اپنے آپ کو اس صدی کا سب سے بڑا دانشور سمجھتاہے اس نے ترت جواب دیا جاہلوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جرمنی سے علامہ اقبال نے پی ایچ ڈی کی تھی۔۔۔سبحان اللہ کیسا خوبصورت جواب ہے اب چاپلوس دیر تک اپنا سر ہلا ہلاکر تائیدکرتے دکھائی دیں گے بیشترسننے والے ابھی تک حیران اور پریشان ہوکر عمران خان اور طاہرالقادری کو کوس رہے ہیں کہ یہ گورنمنٹ ختم ہوگئی تو ایسے دانش سے بھرپور جواب کون دے گا؟۔۔ ایسی باتیں سن کر درویش کے دل پر کیا گذرتی یہ سوچنا بھی محال ہے شایدوہ یہ بے اختیار پکار اٹھتا

Defense

Defense

انشاء جی اٹھو ا ب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
لیکن وزیروں، مشیروں، معاونین، ارکان ِ اسمبلی اور ان کے سینکڑوں ہزاروں کوارڈی نیٹروں کا کیا بنے گاجن کی کل کمائی کا انحصارہی حکومت کی ہر غلط بات کا دفاع اور مرے پہ سو ۔۔درے کے مصداق ا پنے جناتی طرز ِ عمل اوراس کا دفاع پر اصرار کرنا ہی ہے۔ ۔صرف ایک اسی طرزِ عمل کی وجہ سے حکومتی صفوں میں جاہل قطار اندرقطار تن کر کھڑے ہیں اورسچ پوچھئے یہی مسائل کا اصل سبب ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کبھی سچی بات نہیں کرتے کہ اللہ انہیں ایسا کرنے کی توفیق ہی نہیں بخشتا۔ہم دیکھیں غورکریں تو احساس ہوگا اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ ان گنت جاہلوںسے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کی قیامت خیزترقی، نت نئی ایجادات،شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتاہوارحجان، حالات اور ذہنوںمیں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہواوہ بھی جانتے ہیں یہ سلسلہ زیادہ دیرتک نہیں چل سکتا اندھیرا محض اتنی دیرہی کا مہمان ہوتاہے

جب تک سورج طلوع نہیں ہوتا اور پہلی کرن ہی اندھیرے کا سینہ چیرتی ہوئی ماحول کو منور کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے اندھیراذہنوں میں ہو یا دل میں۔۔ماحول میں ہو یاحالات میں۔۔۔ ہمارے لئے یہ جاننا کافی نہیں جہالت سب سے بڑا اندھیراہے اس کے خلاف جہاد کرنے سے روشن خیالی فروغ پا سکتی ہے کچھ لوگ روشن خیالی کو بے حیائی سے تعبیرکرتے ہیں حالانکہ ایسا سمجھنابھی جہالت کی علامت ہے۔۔۔جہالت دل میں ہو یا دماغ میں۔۔۔ سوچ میں ہویا فکرمیں یا پھر انداز ِ فکرمیں اس کوعلم ہی جگمگا سکتاہے ان پڑھ مولوی ،جاہل دانشور اورسبزباغ دکھانے والے سیاستدان جہالت کے دلدادہ ہیں ان کا کاروبار جہالت کے زور چلتاہے کیونکہ جھوٹ ،منافقت ،ریاکاری،خوشامد ۔۔۔جہالت کے نیٹ ورک کی بنیادی اکائیاں ہیں

Ignorance

Ignorance

جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک اکائی بھی پائی جاتی ہو اس کے جاہل ہونے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے جہالت ذہنی رویے بدل کررکھ دیتی ہے جب درویش نے کہا اپنی غلط بات پر اصرارکرنا سب سے بڑی جہالت ہے تو فوراً دل میں خیال آیا کہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جاہل کبھی اپنی اصلاح کرنا نہیں چاہتا جھوٹے ،مکار،دروغ گو اورانتہا پسندوںکا بھی تو جاہلوں کے خاندان سے تعلق گہراہے سچی بات یہ ہے حسب نسب پر موقوف نہیں ایسے لوگ معاشرہ میں افراط سے پائے جاتے ہیں جنہیںکچھ کچھ نشانیوںکا ادراک ہو جائے انہیں ایک چھوڑ ہزار جاہل مل سکتے ہیں دل و دماغ کے دریچے کھول کر غور کریں تو کسی کی بات سن کر دل گواہی دے دیتاہے کون جاہل ہے کون نہیں؟

جاہلوںکی سب سے بڑی کھیپ پہلے بادشاہوںکے درباروں میں ہوتی تھی مسخرے اور ہاںمیں ہاں ملانے والے اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یا پھر حکمرانوں کے مصاحب جو بات بے بات پر اتراتے پھرتے ہیں ۔۔آج کی مہذب دنیا میں اس قسم کے لوگ سیاستدانوں اور انکے حواریوں میں پائے جاتے ہیں
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگزنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
اس معاشرے میں قدم قدم پر ہمارا واسطہ روزانہ جاہلوںسے پڑتا رہتاہے اورجاہل بھی اس قدر جاہل کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کی قیامت خیزترقی، نت نئی ایجادات،شعو رو آگہی ،فہم و فراست کا بڑھتاہوارحجان، حالات اور ذہنوںمیں آنے والی تبدیلی کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اس سے زیادہ جہالت کا اور کیا ثبوت ہو سکتاہے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی