ڈونلڈ ٹرمپ آج امریکی صدارت سنبھالیں گے، ایٹمی بٹن بھی مل جائے گا

Trump

Trump

واشنگٹن (جیوڈیسک) آج صبح نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ اور فیملی کے ہمراہ وائٹ ہاﺅس کے ساتھ واقع سینٹ جان پیسکوپل چرچ پہنچیں گے جہاں وہ دعائیہ تقریب میں شرکت کرینگے۔

اس کے بعد ٹرمپ اہلیہ کے ہمراہ وائٹ ہاﺅس پہنچیں گے جہاں اوباما اور ان کی اہلیہ نئے صدر کا استقبال کرینگے۔ وہ رخصت ہونیوالے صدر اوباما کے ساتھ صبح کا ناشتہ کرینگے۔ دونوں صدور خصوصی موٹر کیڈ کے ذریعے تقریب حلف برداری میں پہنچیں گے۔ تقریب حلف برداری کیپٹل ہل میں جمعہ کی صبح ساڑھے نو بجے شروع ہو گی۔

ٹرمپ امریکی وقت کے مطابق دوپہر کو ٹھیک بارہ بجے کیپٹل ہل کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر 45ویں صدر کی حیثیت سے چیف جسٹس جان رابرٹس سے حلف لیں گے۔ نائب صدر پینس صدر کے حلف سے پہلے اپنے عہدے کا حلف لے لیں گے۔

تقریب حلف برداری کے بعد ٹرمپ اپنا افتتاحی خطاب کرینگے۔ صدر کو 21 توپوں کی سلامی بھی پیش کی جائے گی۔ اسی روز ایک نامعلوم فوجی ساتھی کے ہمراہ اوباما تمام صدارتی اختیارات منتقل کر دیں گے۔ یہ فوجی اہلکار (مرد یا عورت) اپنے ساتھ ایک بریف کیس اٹھائے ہوئے ہو گا جسے جوہری فٹ بال کہا جاتا ہے۔

اس بریف کیس میں نمبروں پر مبنی ایک ہارڈ وئیر ہوتا ہے جو تین انچ چوڑا اور پانچ انچ لمبا ہے اسے ‘بسکٹ’ کہا جاتا ہے۔ اس میں جوہری حملے لانچ کرنے سے متعلق کوڈز ہیں۔ ان کو کس طرح سے استعمال کرنا ہے اس کے بارے میں تو نئے صدر کو ہدایات پہلے ہی دی جا چکی ہیں تاہم جس وقت ٹرمپ حلف اٹھائیں گے اس وقت یہ بریف کیس خاموشی سے ان کے فوجی ساتھی کو منتقل کر دیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کے بعد کسی بھی ایسے اقدام کے احکامات دینے کا مکمل اختیار حاصل ہو جائے گا جس کا نتیجہ ایک گھنٹے کے اندر اندر لاکھوں لوگوں کی ہلاکت بھی ہو سکتا ہے۔

اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال موجود ہے کہ انتہائی کم قوتِ برداشت کے باعث وہ کیا حفاظتی اقدامات ہوں گے جو جلد باز فیصلوں کے تباہ کن نتائج سے محفوظ رکھ سکیں۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز واشنگٹن میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ماہر مارک فٹزپیٹرک کا کہنا ہے کہ آخرکار حملہ کرنے کا مکمل اختیار صدر ہی کے پاس ہوتا ہے۔ صدر کی جانب سے جوہری حملے کرنے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا کہ کوئی صدر خود ہی کوئی یادگار فیصلہ کر لے گا غیر حقیقی ہے۔ صدر حکم دیتا ہے اور وزیرِ دفاع آئینی طور پر اس کی تکمیل کا پابند ہوتا ہے۔ وزیرِ دفاع کو اگر صدر کی ہوش مندی پر کوئی شبہ ہو تو وہ اس کا حکم بجا لانے سے انکار بھی کر سکتا ہے تاہم یہ بغاوت کے زمرے میں آئے گا اور صدر اسے برخاست کر کے یہی حکم اس کے نائب کو دے سکتا ہے۔

دوسری جانب امریکا کے مختلف شہروں میں ٹرمپ کیخلاف احتجاج بھی جاری ہے۔ مظاہرین کی جانب سے جمعہ کو ملین مارچ کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہوٹل کے باہر تقریب حلف برداری کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک شخص نے خود کو آگ لگا لی ہے۔