تعلیمی اداروں کی تباہ کاریاں

Educational Institutions

Educational Institutions

تحریر : تنویر احمد
علم کی پیاس بجھانے کے لیے علم کی متلاشی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تا کہ تربیت گاہوں سے گزر کر ملک و ملت اور گھر والوں کے لیے کچھ کر سکیں۔ اسی نقطہ نظر کے تحت والدین بھی ہر تنگی تکلیف برداشت کرتے ہیں اور اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں۔ ہر کوئی چاہے وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہے شاید وہ خود تو تعلیم یافتہ نہیں لیکن اس کی خواہش ہے کہ اس کی اولاد ضرور تعلیم سے آراستہ ہو۔

ہمارے نظام تعلیم میں بہت ساری ناہمواریاں ہیں جن کا طلبہ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہیں طبقاتی نظام تعلیم ہے تو اساتذہ کا اپنے شعبے میں مہارت نہ رکھنا ہے۔ کہیں زبان کا مسئلہ آڑے آجاتا ہے۔ ہماری پیدائشی اور قومی زبان اور ہے اور تعلیم میں زبان اور ہے۔ ان ساری مشکلات سے گزرتے ہوئے کروڑوں طلباء میں سے ہزاروں ایسے ہوتے ہیں جو کسی پروفیشنل ادارے میں جانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ قوم اور گھر والوں نے ان پر امیدیں لگائی ہوتی ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے اور ملک کی کریم ہے۔

ان طلباء کو جو قلیل تعداد میں ان تعلیمی اداروں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہمارے نا خدائوں نے ایک ظلم ڈھایا۔ ان طلباء کو مفت لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ چلانے کیلئے EVO دی گئی حتی کہ پروفیشنل اداروں سے نکل کر یہ کالجز اور پھر اب سکولوں میں بھی مٹھائی کی طرح بانٹ رہے ہیں۔ طلباء اور ان کے والدین بڑی مسرت اور خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو لیپ ٹاپ دیے جارہے ہیں لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کے پیچھے کیسا زہر ہے جو قوم کی روں میں اتارا جارہا ہے جس زہر کے اثر کی وجہ سے ہماری آئندہ آنے والی نسلیں تباہ ہوسکتی ہیں۔

Students

Students

اس لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے ملنے کے بعد طلباء کی یہ صورت حال کہ وہ اپنا سارا وقت ان پر صرف کررہے ہیں کئی کئی گھنٹے اس پر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ساری دنیا کا گنداور وہ چیزیں جو ان کے تعلیمی مقاصد سے دور کردے گی وہ ان کی ایک کلک پر ہیں۔ گانے سننا اور بے مقصد سوشل میڈیا ان کی پڑھائی کا وقت لے جاتا ہے۔ فلمیں اور گانے بجانے کے سامان نے ان کو بھلادیا کہ ان کا رب بھی ہے۔ نماز بھی پڑھنی ہے، قرآن کو بھی وقت دینا ہے، والدین کا بھی کوئی ان پر حق ہے۔ ان سارے مقاصد میں سے صرف گانے بجانے اور فحاشی و عریانی کی تباہ کاریوں پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اخلاقی قدریں مفقود ہوتی جارہی ہیں۔

شرم و حیا کا جنازہ نکل رہا ہے۔ نبی مکرم ۖ نے فرمایا ”نبوت کی پہلی باتوں میں سے جو بات لوگوں نے پائی ہے وہ یہ ہے کہ جب تجھے شرم و حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرتا پھر” (صحیح بخاری) صادق مخبر نے امت کو اس بات سے بھی مطلع کیا: ”حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں۔ ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے” (مستدرک حاکم) فحاشی و عریانی میں ڈوبا ہوا شخص اور معاشرہ حیا سے عاری ہوتا ہے۔ ایمانی لذت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ وہ چیزیں جو ایک باغیرت انسان کبھی بھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کے گھر میں پھر بہنوں اور والدین کی موجودگی میں ہوں لیکن غیرت دم توڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد تفریح کے نام پر اور دل بہلانے کے لیے ہر چیز برداشت اور ہضم کرجاتا ہے۔ اس کو روشن خیالی اورجدید دور سے ہم آہنگی کا نام دیا گیا۔ جس چیز کو ہم بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے گھروں اور معاشروں میں جگہ دے رہے ہیں اس کے بارے میں آپۖ نے فرمایا: ”مجھے آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے (مسند احمد)۔ اس عریانی کے پھیلانے کے نتائج بھی ہم سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس کا رزلٹ ہمارے سامنے آگیا ہے۔ آج اخبارات شہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبریں نشر کرتا ہے کہ فلاں نوجوان لڑکی نے گھر سے فرار ہوکر کورٹ میرج کرلی۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان نے محبت میں ناکامی کی وجہ سے خود کشی کرلی۔ ان خبروں کے آنے کے بعد والدین منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔

ہمارے تعلیمی اداروں کو یورپ کی نقالی کرنے پر لگایا جارہا ہے۔ وہ مغرب جو اپنی اس بے راہروی سے تنگ آگیا ہے ہم ”دور کے ڈھول سہانے”کے تحت بھاگ بھاگ کر ان پر مرے جارہے ہیں۔ اس راستے پر چلنے کے بعد سوائے تباہی اور ہلاکت کے اس کا کوئی آخر نہیں ہے۔ دنیا میں بھی رسوائی ہے اور اللہ کے عذاب کو بھی دعوت ہے۔ نبی اکرمۖ نے فرمایا ”اس امت میں مندرجہ ذیل عذاب آئیں گے۔ زمین میں دھنس جانا، پتھروں کی بارش، شکل و صورت کا بدل جانا اور یہ عذاب تب آئیں گے جب لوگ شراب پئیں گے، گانے والی لونڈیاں اختیار کریں گے اور آلات موسیقی بجائیں گے” (ترمذی) ہمیں ان احادیث کی روشنی میں غورو فکر کرنا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں کو اصلاح کے راستے پر گامزن کرنا ہے۔ حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور والدین کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت کی رسوائی اور عذاب سے بچ سکیں۔ اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے (آمین)

Tanveer Ahmad

Tanveer Ahmad

تحریر : تنویر احمد