فاٹا قوانین میں تبدیلی

FATA

FATA

تحریر: شکیل مومند
فاٹا پاک افغان سرحد پر واقع تقریباً 27,224 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا علاقہ ہے اور فاٹا کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے اور پاکستان کا سب سے کم ترقی یافتہ خطہ ہے۔ یہ خیبر پختونخوا اور جنوبی افغانستان کے درمیان واقع ہے اور جنوب مغرب میں بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے یہ خطہ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے باقی ماندہ ملک سے بالکل الگ تھلگ ہے 1973ئ کا آئین فاٹا کو پاکستان کے قانونی، عدالتی اور پارلیمانی نظام سے خارج کرتا ہے۔

اس کے تحت پارلیمنٹ براہ راست فاٹا کے لیے قانونی سازی نہیں کر سکتے اور اس کے باشندے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر نہیں کر سکتے۔ قبائلی علاقہ جات کے لاکھوں لوگوں کی نظریں اسلام آباد پر مزکور ہیں۔ کیونکہ فاٹا کے حوالے سے حکومت عنقریب فیصلہ کرنے والی ہے۔

قبائلی علاقوں میں اصلاحات کی رپورٹ کو ختمی شکل دے دی گئی ہیں جس کی منظوری میاں محمد نواز شریف دیں گے۔ جبکہ مشترکہ مفادات کونسل سے ختمی منظوری لینے کے بعد سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ فاٹا کو مرحلہ وار پختونخوا میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ اصلاحات تین مراحل میں ہونگے۔ لیکن شامل کرنے سے پہلے سیاسی، انتظامی اور عدالتی اصلاحات نافذ کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں ایف سی آر میں ترامیم کرکے فاٹا ریگولیشن ایکٹ 2016نافذ کیا جائے گا۔ جبکہ فاٹا میں پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کے لیے آئین کی شق247، ذیلی شق7میں ترامیم کی جائے گی۔

FATA

FATA

ایف سی آر میں ترامیم کے ذریعے پولیٹیکل ایجنٹ کے ادارے کے اختیارات محدو کر دیے جائیں گے۔ مقامی انتظام کے لیے خاصہ دار اور لیویز فورس میں جدت لاکر پولیس رول متعارف کرانے کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ جبکہ دیوانی اور فوجداری مقدمات کے لیے باقاعدہ عدالتی نظام کھڑا کیا جائے گا۔ لیکن ثالثی کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے لیے مقامی عدالتوں کے ذیر انتظام ایلڈر کونسل قائم ہونگے۔ شریعت لاء کو قبائلی علاقہ جات میں توسیع دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ لیکن تنازعات کے حل کے لیے رواج کا مروجہ نظام جاری رہے گا۔

سیاسی اصلاحات کی عرض سے یونین کونسل کی سطح پر مقامی لوگوں کو علاقے کے معاملات میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی۔ اور اس کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کو قائم کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت قبائیلی علاقوں میں بلدیاتی اداروں کے قیام کی منظوری دیں گا۔ فاٹا لوکل گورنمنٹ ریگولیشن نافذ کیا جائے گا جس کے تحت تمام سات ایجنسیوں اور چھ نیم قبائلی علاقوں میں بلدیاتی ادارے قائم کیے جائیں گے۔ مجوزہ نظام کے تحت ہر ایجنسی میں ایک ایجنسی کونسل، میونسپل کمیٹیاں اور یونین کونسل قائم کیے جائیں گے۔ ہر کونسل میں سات جنرل دو خواتین کی نشستیں ہونگی۔

نوجوانوں، کسانوں اور اقلیتوں کے لیے ہر کونسل میں ایک ایک نشت رکھی جائے گی۔ ایجنسیوں اور ایف آرز میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کے لیے اعلیٰ اختیاراتی اتھارٹی قائم کہی جائے گی۔ مجوزہ نظام کے تحت آبپاشی، زراعت، ٹریفک منیجمٹ، ثقافتی سرگرمیوں کے اختیارات بھی ایجنسی کونسلز کے سپرد کی جائے گی۔ فاٹا کے بلدیاتی اداروں کو لوکل کونسل گرانٹس سے فنڈز دیے جائیں گے۔

Law

Law

گورنر خیبر پختونخوا فاٹا کے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے لوکل کونسل کمیشن کے ذریعے ان اداروں کا اڈٹ کرائیں گے۔ ڈسٹرک اینڈ سیشن جج کو قاضی کا درجہ دیا جائے گا۔ جو مقامی جرگے کے ساتھ مل کر مقامی تنازعات کے فیصلے کریں گا۔ چند مراعات یافتہ مشراں کے ہاتھوں ایک کروڑ قبائیلیوں کو یرغمال بنا دیا گیا ہے۔

فاٹا کی ترقی کی مد میں سالانہ کروڑوں، اربوں روپے جاری کیے جاتے ہیں لیکن یہ رقم عوام تک نہیں پہنچتی۔ 115سال سے نافذ انگریزوں کا بنایا ہوا کالا قانون ایف سی آر، لیکن اب فاٹا میں نظام عدل ایکٹ نفاظ کی خبریں بھی چل رہی ہیں۔ سیاسی جمعتوں کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ نظام عدل ایکٹ ایک عرضی ایکٹ ہے جس کا پہلے ہی سے ملاکنڈ ڈویژن میں تجربہ ہو چکا ہے۔

ملاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل کا نفاذ 2009میں ہوا۔قبائلی علاقوں کو سیاست، ترقی، تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں میں قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت نصف صدی سے محسوس ہو رہی ہیں۔ توقع ہے کہ شخصی اور سیاسی آزادی ملنے کے بعد قبائلی علاقوں کے عوام الگ صوبہ یا فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے خود ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔

Shakeel Momand

Shakeel Momand

تحریر: شکیل مومند