گلوئوں کی کمی نہیں غالب

Corruption

Corruption

تحریرخ: انجینئر افتخار چودھری
بڑے افسوس اور دکھ سے لکھنا پرتا ہے کہ اس بار کرپشن حرام خوری کو جو سرکاری سر پرستی حاصل ہو رہی وہ شاید زندگی میں کبھی نہیں ہوئی۔ ایک بار لکھا تھا کہ زمانہ پہلے اس قسم کے لوگوں کو معاشرہ بری نگاہ سے دیکھا کرتا ہے لیکن آج تو لوگ کسی کو تولتے ہوئے اس کے لباس گاڑی اور اس کے ہاتھ پکڑے موبائل سے وزن کرتے ہیں۔ گجرانوالہ شہر میں ایک حاجی صاحب کو حاجی بلیکیا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ ایوبی دور میں سوت کا کام کرتے تھے کوٹے میں ملنے والے سوت کو منڈی میں بیچ کر وہ ناجائز منافع کماتے تھے معاشرہ ان کو اس غلط کام سے نہ روک سکا مگر انہیں بلیکیا نام مل گیا جو آج بھی سفر کر رہا ہے۔ پرسوں کے ایک ٹاک شو میں مسلم لیگ نون کے ایم این اے سے بحث ہو گئی۔

وہ اپنے موبائل میں ایک سڑک کی تصویر دکھا رہے تھے جو بن رہی تھی ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قاید میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے سڑکوں اور میٹرو کا جال بچھا دینا ہے۔ میں نے کہا کہ اچھی بات ہے مگر یہی کام اگر آپ نے میٹرو جیسے منصوبے پر ٦ ارب روپے کی پھکی دینے کے ساتھ کرنا ہے تو یہ بہت بری بات ہے۔ موصوف نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا کھائیں گے اور ڈنکے کی چوٹ پر کھائیں گے۔ ایک دوسری خبر بھی دیکھ لیجئے آج پتہ چلا کہ سندھ میں سالان ہ٢٣٠ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے اور اس میں چندہ اور فطرہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے ناجائز اسلحہ اور دیگر سنگین جرائم کئے جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کیا ہم نے اس قسم کی خرابیوں کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیا ہے ہم بحثیت مجموعی ایک کرپٹ معاشرہ ہیں؟ نومولود سیاست دان رکن قومی اسمبلی ڈھٹائی سے کہہ رہا تھا کہ ہاں ہم کھائیں گے۔یہ انحطاط ایک نئی چیز ہے ہے اب انہیں کوئی بلیکیا نہیں کہتا۔٢٣٠ ارب روپیہ کوئی تھوڑی رقم نہیں ہے اس سے کراچی کے پانی کا مسئلہ اور امن و امان کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔بھتے اور قربانی کی کھالوں کے بارے میں تو آپ سب کو علم ہے کون لیتا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ نہ صرف بکرے کی بلکہ قوم کی کھال بھی اتارنے میں مصروف رہتی ہے ۔کبھی حکیم سعید کی کھال کبھی گارمنٹس فیکٹری کے ٢٥٨ لوگوں کی جماعت اسلامی اس میدان کی پرآنی کھلاڑی ہے تحریک انصاف کا شوکت خانم تک تعلق ہے ۔الطاف حسین نے آج ایک نئی لعنت کا اعلان کر ڈالا ہے ان کا فرمان ہے جو کھالیں بیچ چھین کر اور بھتہ وصول کر نے میں مصروف ہے اس پر خدا کی لعنت۔میں اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ متحدہ نے اس قوم کو بوریوں میں کیا دیا ہے؟۔پاکستان میں میٹرو سڑک پل کے نام پر مسلم لیگ نون نے انھی پائی ہوئی ہے ۔

Businessman

Businessman

اس کے وزیر مشیر اپنی غربتیں دور کر رہے ہیں۔ کاروباری طبقے کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اینٹیں سستی ہونے کا اعلان ہوا پتہ چلا ایک ہزار روپے ٹرک بڑھ گئی ہیں اس لئے کہ ستر ہزار سے اوپر بجلی پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ اس طرح سامان خوردونوش مہنگا ہو گیا رمضان بھی سر پر ہے مہنگائی کو جو طوفان بد تمیزی آنے والا ہے لوگ اس پر احتجاج کرنے کی بجائے تیاری کر رہے ہیں کہ جوتے کھانے والوں کی قطاروں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اس لئے کہ معاشرہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کا عادی ہو چکا ہے۔سب کچھ ہو رہا ہے لیکن سچی بات ہے سچ نہیں بولا جا رہا۔ بنکوں کی ٹرانسیکشن پر اعشاریہ چھ فی صدکا جگا ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ مرحوم چنن دین اگر زندہ ہوتے تو اپنے بیٹے اسحق ڈار کے کان کھینچتے ،اس میںنہ لیا نہ دیا گلاس توڑے جانے پر ہر ادئیگی خاموشی سے عوام کی جیب پرڈاکہ ڈالا گیا ہے۔مارا کون جائے گا جو سفید منی کو بنکوں میں رکھ کر کام چلا رہا تھا۔تنخواہ دار مارا جائے گا ایمان دار مارا جائے گا۔

لوٹ مار کے رواج کی شان دیکھئے جب قوم پر یہ ڈاکہ ڈالا گیا اس سمے نان ایشو کو ایشو بنا کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔عمران خان نے جب دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی تو دنیا کو پتہ چل گیا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر گجرانوالہ کے آگ کے دریا کو پار کرتا ہوا اسلام آباد پہنچا دھرنہ دیا گولیاں کھائیں سردی گرمی بارش سب کچھ برداشت کیا اور گورنمنٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا کہ وہ انکوائری کمیشن بنائے۔مخالفین عمران نے کے پی کے میں ٣٠ مئی کو ہونے والے انتحابات پر بے وقت کی راگنی الاپی خود میاں افتخار حسین مظاہرین کو اکساتا رہا کہ دوکانیں بند کرائیں۔لیکن وہ تماشہ نہ ہو سکا۔یہ وہی افتخار حسین ہے جو ایک بیٹا دے کر قوم سے ہمدردی کی بھیک سے کام چلا رہا ہے۔پشتونوں کے خون کو بیچ کر ایزی لوڈوں کے ذریعے کام چلانے والو جب کنٹینروں میں پشتون مارے گئے تو تم تو مشرف کی گود میں فیڈر پیتے رہے ہو جس میں خون پشتوناں تھا۔میں نے نہیں بیگم ولی خان نے کہا ہے۔

اصل سازش تھی معاملے کو گھوڑے کن برابر کرنے کی جو نہ ہو سکا۔افتخار حسین کو کام پے لگایا گیا تھا کہ جائو دس پندرہ لاشیں گروائو تا کہ لاہور کے واقعے کی لعنت سے جان چھڑائی جا سکے۔اس کے ڈھانڈے اسلام آباد ہی جا کر ملتے ہیں کھوجی کی حیثیت سے دیکھیں تو کھرا وزیر اعظم ہائوس تک جاتا دکھائی دیتا ہے۔جن کی خواہش ہے کہ قوم کو بتائیں کہ دھاندلی اکیلے ہم نے نہیں کی عمران خان نے بھی کرائی ہے۔وہ چاہتے تھے کہ ماڈل ٹائون کی طرح ایک خونیں ڈرامہ پشاور میںبھی رچائیں تا کہ خیبر کے پی کی بھی پنجاب کی خونخوار پولیس کی طرح قرار دی جائے۔مظہر شاہ کہا کرتا تھا میں ٹبر دا ٹبر کھا جاواں تے ڈکار نئی ماردا۔وہ بھی سابق تھانے دار تھا اور پنجاب پولیس کا کا کردار بھی اس جیسا تھا ولن پولیس نے لاہور فیصل آباد ڈسکہ اور پندی میں جو سیاہ کارنامے ادا کئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ڈائر ابھی زندہ ہے اور اس نے کالی قمیض اور خاکی پتلون پہن لی ہے۔

Journalist

Journalist

افسوس کے سارے صحافی اسلام آباد کے خوبصرت اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر پخونخواہ پر تبرے بھیجتے رہتے ہیں جو گیا اس سے پوچھیں۔کیا کیا جائے جس ملک میں چین جائے بغیر دیوار چین کی سیر کرا دی جائے جس نے کوہالہ پل نہ دیکھا ہو اسے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین اور جو انگریزی کی اے بی سی نہ جانتا ہو اسے امور خارجہ کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جائے اس ملک یہی کچھ ہوتا ہے۔پشاور میں احتجاجی تحریک کے غبارے سے ہوا نکل گئی اس روز اس ہوا سے جو تعفن برآمد ہوا وہ اینٹی عمران تھا۔عمران خان جیسا کھلاڑی کم ہی ہو گا اس نے کہا پھر آ جائو جس پر سردار رضا صاحب کا کہنا تھا کہ یہ گڈے گڈی کا کھیل نہیں ہے۔اس سے ایک بڑی خبر یہ نکلتی ہے کہ الیکشن کمیشن میں اتنا دم خم ہی نہیں کہ وہ صیح الیکشن کرا سکے۔میں تو یاسا ہی کرا سکتا ہوں۔کپتان کہتا ہے پھر آ جائو ہارنے والے کہتے ہیں استعفی دو۔استعفی اگر آپ نے ١٢٦ دن کے ملک گھیر لازوال تحریک کے نتیجے میں دیا ہو تا تو ادھر سے بھی مل جایتا پہلے جائون نہ جون کی گرمی میں ذر ا دھوپ کے مزے نہیں تلوے چاٹو بارش آندھی طوفان کا مقابلہ کرو کچھ پلاسٹک کی اور کچھ اصلی گولیاں کھائو تو پھر کمیشن بنا دیا جائے گا۔

لیکن خان نے انہیں وہ آفر اسی دن دے دی۔سچی بات تو یہ ہے بلدیاتی انتحابات میں جس کی لاٹھی ہوتی ہے اسٹیشن پر دو پولیس والے کیا کر سکتے تھے جس طرح میرے بھانجے کے حلقے میں ایک عورت رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تو ہم نے اسے اٹھا باہر کیا ۔عملہ بھی نون لیگی امیدوار کی حمایت کر رہا تھا۔یہ موضع درکوٹ یو سی جبری کا اسٹیشن تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملک پاکستان میں آج تک کوئی ایسا بلدیاتی انتحاب نہیں ہوا جس میں خونریزی نہ ہوئی ہے۔لوگ شکست کو زندگی اور موت کا عنوان بنا لیتے ہیں انہیں کسی دور دراز کے امیدوار سے ہارنا تو گوارا ہوتا ہے لیکن وہ ان لوگوں سے ہارنے سے موت کو ترجیح دیتے ہیں جن کے ساتھ صبح شام گزارتے ہیں ۔دیکھئے کے پی کے میں تحریک انصاف کے کارکن سب سے زیادہ مرے۔

ایبٹ آباد میں نون لیگی ہارے ہوئے تحصیل کونسل کے امیدوار نے ہوٹل پر مخالفین کے اوپر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں چار قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں چارسدہ پبی میں جہاں میاں افتخار حسین جیسے قانون کی رہائش ہے وہاں بھی یہی کچھ ہوا۔علی امین گنڈہ پور پر خوامخوا الزام لگا دیا گیا انہیں ہتھکڑی لگی تھانے بند ہوئے جیل گئے پھر ضمانت ہوئی رانا ء ثنائاللہ نے لوگ مارے دندناتے پھرتے رہے جے آئی ٹی سے فیور میں فیصلہ لیا چار ماہ وزیر سے مشیر بنے رہے اور پھر مکمل مونچھوں کے ساتھ وارد ہو گئے۔بدمعاش معاشرے کی تشکیل سے حالات بہتر نہیں ہوتے۔

Punjab Police

Punjab Police

پنجاب پولیس خونخوار پولیس بنا کر آپ حکومت تو کر سکتے ہیں مگر یاد رکھئے شیر کے منہ کو آدم کا خون لگ جائے تو وہ نہیں دیکھتا کہ آدم نون لیگی ہے جماعت اسلامی کا ہے یا تحریک انصاف کا۔
لوگ سبق نہیں حاصل کرتے۔تحریک نجات میںکیا کچھ اس پولیس نے کیا،واجپائی کی آمد پر جو کچھ ہوا کیا یہ کل آپ کے ساتھ نہیں کریں گے؟بلکل کریں گے سولہ آنے کریں گے۔منطق دیکھئے ان طورم خانوں کی ایم این اے کہتا ہے کھائیں گے،اور پھر کہتا ہے ماریں گے موٹر سائیکل سوار رکتے نہیں۔

یہ گلوئآنہ طرز سیاست چھوڑ دیجئے۔کل کا لونڈہ ایک اور گلو نام ہے جس کا کامران بٹ ایک عرصے سے حاجیوں کو لوٹ رہا ہے یہ وہ نام ہے جس نے مولانا حامد کاظمی رائو شکیل کے ساتھ مل کر کرپشن کی آج کل یہ ایک گلو ہے۔پاکستانی ریحاب اسکول کی مینیجمنٹ کمیٹی میں گھسا ہوا ہے۔لاکھوں ریال کی کرپشن کرنے والے کو وہاں لگام دینے والوں کی زندگی اجیرن بنائی ہوئی ہے۔جو اسے حرام نہیں کھانے دیتا اسے تحریک انصاف کا سیاسی کارکن کہہ کر اس ویزے رکوا رہا ہے، منظور شدہ چھٹیاں منسوخ کرا رہا ہے۔ اور مجھے علم ہے کہ اس کے پیچھے قونصلیٹ میں بیٹھا کون شخص ہے جو اس سے کمیشن کھاتا ہے۔میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ سحر کامران کو نکالنے کی بنیادی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کرپٹ تھی وجہ یہ تھی کہ تم نے اس سونے کی چڑیا کو خوب لوٹا اب ہماری باری ہے ہمیں کھسوٹنے دو۔پر کریں کیا ایماندار لوگ بھی تو اسی معاشرے میں رہتے ہیں۔

میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ کامران بٹ باز آ جائو آگ سے نہ کھیلو حرمین میں رہ کر اللہ کے گھر کے باسیوں کی زندگی تباہ نہ کرو خود اللہ پکڑ میں لے لے گا۔میں منتظر ہوں تمہاری اس تحریر کا جس میں تم نے کسی ٹینڈے نما آدمی کے ایماء پر مجھ پر کیچڑ اچھالا۔کہ میں نے بلیک میل کیا میری سعودی عرب کی تیس سالہ زندگی میں کوئی ایک شخص بھی کہہ دے کہ میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس کا جواب دہ ہوں۔ہاں یہ میرا قصور ہے کہ پاکستانیوں کو نوکریاں دلوانے کا جرم ضرور کیا ہے اس کے لئے جائو جا کہ دیکھ لو کتنوں کو جاب دلوایا۔تمہیں بھی نوکری دلوانے کی کوشش کی تھی۔کی تھی ناںجواب ضرور دینا۔سیاست کرنے کی گالی تو نہ دو ہم بھی تو اسی الزام میں آئے تھے ارشد خان قاری شکیل عظمت نیازی ،مسعود پوری خوجہ امجد آفتاب مرزا نعیم بٹ سب کون تھے نواز شریف کے ساتھی جو ایک غاصب اور ڈکٹیٹر کے دور جنرل مشرف کے ظالمانہ اقدامات کی نظر ہوئے۔تمہارا قاید تو مانتا ہے Tell me Chaudhry sahib How can i help you? Are you in Pakistan or KSA?۔اب یہ تحریر پڑھ کر قونصلیٹ کی سیڑھیاں چڑھنا اور وہاں سے ہدایات و صول کر کے ایک اور جواب لکھنا۔ یاد رکھ کا کا بیٹری صرف اوساکا ہی نہیں اور بھی ہیں میرے اللہ نے اس دنیا کو چلانا ہے جس کی بیٹری فلیٹ نہیں ہوتی۔مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ
گلئوں کی کمی نہیں غالب
ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریرخ: انجینئر افتخار چودھری