صلح حدیبیہ سے فتح مکہ

Politics

Politics

تحریر: شاہ بانو میر
سیاست کی کامیابی بہترین ٹیم ورک ہے جس کی ٹیم کے ساتھی مضبوط مخلص بے لوث وہ ہر مشکل میں کامیاب
ساتھی اور ٹیم ورک کی کامیابی کو سمجھنا ہے تو ہمیں چاہیے کہ صحابہ کرام کو پڑہیں ایسے ساتھی جو اپنے رہنما کی ابروئے جنبش کو سمجھتے تھے اور بغیر تاویل کے بغیر ابہام کے لبیک کیلئے ہمیشہ ہر وقت حاضر صحابہ کرام کو ہمیں پڑھنا ہے سیاسی تربیت کیلئے اور شاندار کامیابی کے حصول کیلئے سیاست کے مدو جزر میں کیسے موافق اور نا موافق حالات میں کیسے چلنا ہے یہ ان سے سیکھنا بہت ضروری ہے بھوک افلاس زدہ آپۖ کے ساتھی نحیف و نزار جیسے ہی اللہ کے نبیۖ کا حکم سنتے تو ایسے غزوات میں شمولیت کیلئے تیار ہوتے کہ ان سے زیادہ طاقتور ہی کوئی نہیں جنگیں وسائل سے کم اور جزبوں سے زیادہ جیتتے تھے اور ان کے خلوص کے جواب میں آسمان سے مدد کیلئے فرشتے اترتے تھے آج ساتھی ان صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں جن کی آپۖ سے محبت اور جاں نثاری کی مہر اللہ پاک یوں لگاتے ہیں کہ “”رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ ذلک الفوز العظیم “” اللہ ان پر راضی ہوگیا اور یہ اللہ پر راضی ہو گئے یہ بہت بڑی کامیابی ہے آپۖ نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ تھے جس سے عمارت کو مکمل ہونا تھا

اس لئے قرآن کے ذریعہ جو نظام دیا جا رہا تھا اس کومکمل بھی کرنا تھا آپ ۖ کو چن چن کر بہترین ساتھی اللہ پاک نے عنایت کئے جو مشکل وقت میں اپنے جان و مال کو نچھاور کرتے تھے تاکہ باطل ہمیشہ کیلئے فنا ہو جائے شائد آپکو علم ہو کہ یہ تاریخی فتح مکہ کی بنیاد بظاہر شکست قبول کرنے والے معاہدے “” صلح حدیبیہ “” کے بعد ملی تھی صلح حدیبیہ کیا ہے؟ ہجرت کے 6 سال بعد خواب آنے پر ساتھیوں کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے کہ عمرہ ادا کیا جائے عمرے کی غرض سیتمام صحابہ کرام خوشی سے تیاریاں کرتے ہیں صرف ہتھیار کے طور پر نیام میں بند تلوار تھی جو رواج تھا حفاظت کیلئے قربانی کے اونٹوں کے کہان چاقو سے نشان لگا دیے بکریوں کو پٹے پہنا دیے گئے

Sulah Hudaibiyah

Sulah Hudaibiyah

مگر جیسے ہی مکہ کے قریب پہنچے تو مشرکین کسی طور اجازت نہیں دیتے عمرے کی دوسری جانب صحابہ کرام غصے میں لڑنے مرنے کو تیار کہ ہر صورت آئے ہیں تو عمرہ کریں گے یہاں تحریری عہد نامہ”” صلح حدیبیہ “” لکھا جاتا ہے جو سراسر مسلمانوں کے خلاف لگتا ہے کہ مسلمان اس سال واپس جائیں گے اور اگلے سال آئیں گے ذرا سوچیں “”بسم اللہ الرحمن الرحیم”” لکھنے سے مشرکین نے انکار کر دیا اور لکھوایا “”باسمِک اللھم””(اے اللہ تیرے نام سے) مشرکین رسول اللہ سے انکار کرتے ہیں کہ یہی تو اصل مسئلہ ہے آپ تحمل سے ان کے کہنے پر “”محمد بن عبداللہ”” لکھتے ہیں حضرت علی”” محمد الرسول اللہ “” لکھا ہوا نہیں مٹاتے تو آپۖ خود مٹا دیتے ہیں مشرکین اپنی دانست میں کامیاب ہو کر واپس لوٹتے ہیں

مگر اصل میں یہیں سے ان کی طاقت کا زوال شروع ہوا جیسے آج بظاہر دھرنا ملتوی کرنا عمران خان کی شکست سے گردانا جا رہا ہے مگر دوسری جانب ہم اس ے ثمرات سپریم کورٹ میں دیکھ رہے ہیں یہی ان کا نقطہ زوال ہے یعنی ہمارا کامیاب آغاز ہے اس وقت بھی یہی جزباتی کیفیت تھی صحابہ کرام عمرہ نہ کرنے پر شدید جزباتی کیفیت کا شکار تھے یعنی آپ سے خفا سے تھے مگر زباں ادب سے خاموش تھی پہلی بار تھی کہ آپۖ کے ساتھی احرام بدلنے کو تیار نہ تھے آپۖ کو ام سلمی نے کہا کہ آپ احرام بدلیں اور بال منڈوا لیں

آپ کے ساتھی انشااللہ ایسا ہی کریں گے آپ نے ایسا ہی کیا اور جب آپکو دیکھا تو سب نے ہی اطباع کی
مگر مورخ لکھتا ہے کہ اس وقت ان کے جزبات اس قدر مشتعل تھے کہ ایک دوسرے کے بال استرے سے ایسے مونڈ رھے تھے گویا کہ دشمن کو قتل کر رہے ہوں وقت نے مسلمانوں کو اس وقتی پسپائی پر اپنے رہنما کی پیروی کا انعام “” فتح مبین”” کی صورت عطا کیا فتح مکہ دھرنے کے ملتوی ہونے پر نجانے کیوں کارکنان کا غصہ ناراضگی دیکھ کر بار بار ماضی کا یہ تاریخی ساز واقعہ اور وہ قابل قدر لوگ یاد آئے جو یونہی خفا سے تھے حالانکہ ان کا آپۖ پریقین اتنا پختہ تھا کہ وہ اپنے رہنما کی ایک آواز پر جان نچھاور کرنے کو تیار تھے وہ بھی اس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھے انہیں فتح مبین ملی کیونکہ وہ مخلص تھے بے غرض بے لوث کیا ہم سب ایسے ساتھی ہں؟ ساتھی اچھے ہوں تو ٹیم ورک کسی بھی صورت میں ہارنے سے بچاتا ہے سوچنا تو ہمیں ہے کیا ہم ایسے کارکن ہیں کہ ہم اپنی کارکردگی سے مطمئین ہوں؟ کیا ہم بھی ایسے گھروں سے نکلے کفن باندھ کر؟

Imran Khan

Imran Khan

آسانیوں میں کپتان کے ساتھ کھڑے ہو کراس بات سے لطف اندوز ہونا کہ ایک طاقتور سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں بہت آسان ہے اصل امتحان تو مشکل میں ہوتا ہے سوچنا تو ہوگا ہمیں کہ اب ماشااللہ ہم 20 سال کی عمر گزار چکے سیاست میں کیا وہ پختگی ہے جو مضبوط کارکن میں ہونی چاہیے؟ سوچیں زرا حکومتی حراست میں لئے گئے کارکنان کی تعداد بہت ہی کم تھی کہاں تھی وہ سونامی جس کو اس دن اسلام آباد ہر صورت پہنچنا تھا اور بوگس نظام کو اس کرپشن کے طوفان کو اپنے ساتھ بہا لے جانا تھا؟ سوچیں کپتان اکیلا ہے ہم ہیں اس کا غرور اس کی طاقت ناراض ہونا بہت آسان ہے مگر ایک دلیر رہنما کے جرآت مندانہ فیصلوں پر اس جیسا انداز اپنا کر خطروں کو گلے لگانا بہت مشکل ہے کامیاب ٹیم ورک آپۖ کی ٹیم سے سیکھیں پڑہیں صحابہ کرام کو جو شہادتیں دیتے ہوئے آخری سانس پر بھی پوچھتے
کہ آپۖ کیسے ہیں؟

جن کے زندہ جسم کو کاٹ کاٹ کر ٹکڑوں کی صورت الگ کیا جاتا اور کہا جاتا کہ انکار کردو محمدۖ سے تو ابھی چھوڑ دیں گے ؟ وہ کہتے ایک جان ہے ہزار بھی ہوتی تو قربان تھیں ۖ اللہ اور اس کے نبی ۖ پر نبیوں میں سب سے آخر اور نظام میں ساتھیوں کی طاقت میں سب سے پہلے آپۖ تھے یہ ساتھی تھے جن کی قربانیاں اصل وجہ بنیں اسلام کے تیزی سے پھیلنے کی سوچیں صلح حدیبیہ کی بظاہر ناکامی بعد کی فتح مکہ تھی ہمیں بھی کپتان کے ساتھ عروج میں زوال میں ڈٹ کر چلنا ہے جبھی تو کرپشن جیسے طاغوتی نظام کو شکست اور کپتان کو فتح ملے گی جو اصل میں آپکی فتح ہے سوچیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر: شاہ بانو میر