عالمی یوم القدس، اسرائیلی مظالم اور فلسطینیوں کی پشتبانی

Imam Khomeini

Imam Khomeini

تحریر : ارشاد حسین ناصر
مستضعفین و محرومین کی آواز جنہوں نے بیسویں صدی میں امت مسلمہ کی قیادت کی علمبرداری کی اور ایک عضیم اسلامی انقلاب برپا کر کے اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کیا دنیا انہیں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے نام سے یاد کرتی ہے ۔آپ نے اس انقلاب سے بہت پہلے امت مسلمہ کے قلب میں اس خنجر( اسرائیل نامی صیہونی ریاست ) کی طرف متوجہ کیا اور ان خطرات سے مسلسل آگاہ و خبردار کیا جو مستقبل میں اس منحوس سازش کے عملی ہونے کے بعد مرتب ہو سکتے تھے،آپ نے اس حوالے سے نہ صرف اپنی صدا بلند کی بلکہ اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کو اس مسئلہ کا حل بھی بتاتے رہے،کبھی تو آپ کی آواز ان الفاظ میں خبردار کرتی ۔۔،،اسلامی ممالک کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہئے کہ فساد کا یہ جرثومہ (صہیونی ریاست)، جس کو اسلامی سرزمینوں کے قلب میں تعینات کیا گیا ہے۔

صرف عرب اقوام ہی کو کچلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کا خطرہ اور ضرر پوری مشرق وسطی کو درپیش ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام پر صہیونیت کا غلبہ ہو اور اسلامی ممالک کی زیادہ سے زیادہ زرخیز اراضی کو استعمار کا نشانہ بنایا جائے اور صرف اسلامی حکومتوں کی جانفشانی، استقامت اور اتحاد کے ذریعے ہی استعمار کے سیاہ سپنے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور اگر اسلام کو درپیش اس حیاتی مسئلے میں کسی بھی حکومت نے کوتاہی کی تو دوسری حکومتوں پر لازم ہے کہ اس حکومت کو سزا دیں، اس سے تعلقات توڑ دیں اور دبائو ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کریں۔ تیل کی دولت سے مالامال اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ تیل اور دوسرے وسائل سے اسرائیل کے خلاف حربے (اور ہتھیار)کے عنوان سے استفادہ کریں اور ان ممالک کو تیل بیچنے پر پابندی لگائیں جو اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد بانی انقلاب حضرت امام خمینی نے جمعةالوداع کوعالمی یوم القدس قرار دیا اور اس روز کی اہمیت و ارزش بیان کرتے ہوئے اسے یوم الاسلام اور یوم اللہ و یوم رسول اللہ کہااور امت اسلامی کو اسے منانے کی بھی بھرپور تاکید فرمائی۔انہوں نے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو سرطانی جرثومے سے تشبیہ دی اور اس کیخلاف تمام وسائل سے لیس ہو کر امت کو اس کیخلاف جہاد کاسبق پڑھایا ،اسلام کے اس حقیقی درد آشنا نے ہر موقعہ پر اسرائیل کی نابودی اورامت کے اتحاد کی دعوت دی اور ان خطرات سے خبردار کیا جو مستقبل میں پیش آ سکتے تھے،آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا ، ، آج مسلمانوں کا قبلہ اول، اسرائیل مشرق وسطی میں اس سرطانی پھوڑے کے زیر قبضہ چلا گیا ہے۔ آج وہ پوری طاقت سے ہمارے عزیز فلسطینی اور لبنانی بھائیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور خاک و خون میں تڑپا رہا ہے۔ آج اسرائیل تمام تر شیطانی وسائل کے ذریعے تفرقہ اندازی کررہا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اسرائیل کے خلاف (ضروری وسائل سے)لیس کرے۔

Palestine

Palestine

انبیاء کی سرزمین فلسطین اور قبلہء اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کوچھیاسٹھ برس گذر چکے ہیں ۔15مئی 1948ء کودنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست کوامام راحل امام خمینی نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور امت کو اس کی آذادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی تھی مگر خائن عرب حکمرانوں نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے تسلیم ہونے کی ذلت کو گوارا کیانتیجتا ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اسی طرح دربدر ہیں… …اگر مسلمان حکمران ایران کا ساتھ دیتے تو اسرائیل کا وجود یقینادنیا سے مٹ چکا ہوتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ 67برس عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف یہ 67برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پردردو خوفناک کہانیوں کے عکاس ہیں۔

ان سڑسٹھ برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہردن قیامت بن کر آیا ہے ،ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی ،ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے ،گھر بار ،سڑکیں،بازار ،مساجد و عبادت گاہیں ،سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیاہے ……ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان سڑسٹھ برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں……کون سا ظلم ہے ،جو بے گناہ ،معصوم اور مظلوم قرار دیئے گئے ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا……آج فلسطین کی دختران کی عزتوں کی پائمالی کا حساب نہیں ،کتابیں اور بیگ اُٹھائے سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کی یلغار اور گولیوں کی بوچھاڑ کے واقعات سے کئی دفتر مرتب ہوچکے ہیں ،سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیمی اداروں میں جانے والے ،والدین کی اُمید ،نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں اور نوحہ و ماتم کرتی مائوں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ وفریاد کے مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہرروز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج غزہ کے یہ دلدوزمناظر ،خون آشام داستانیں،روح فرسا کہانیاں ،گولیوں سے چھلنی لاشیں، بہتے لہو کی دھاریں……یہ اُجڑتے سہاگ ،یتیمی کا لباس پہنے معصوم بچے ،ضعیفی و ناتوانی کے چھینے گئے سہارے……یہ تاراج بستیاں ،برباد کھیت و کھلیان،ٹوٹی سڑکیں،اُداس یونیورسٹیاں اور خوف ،وحشت اور ڈر کا چہار سُو راج ……یہ ایک دن،ایک مہینہ اور ایک برس کا قصہ و کہانی نہیں ……بلکہ ظلم کی بنیاد پر وجود میں آنے والی صیہونی ریاست کے قیام میں آنے کے بعد سے ایک ہی منظر روز دوہرایا جاتا ہے …ہر آنے والا دن ان مظالم میں اضافہ لاتاہے ……ظلم و زیادتی اورتشدد کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے ……اس قتل و غارت ،سفاکیت و بربادی کے پیچھے دراصل ایک فلسفہ و فکر کار فرما ہے ……اسی فلسفہ و فکر کے حامل صیہونی یہودیوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے قبضہ میں کرنے کا پروگرام ترتیب دیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور اپنی بالادستی قائم کر لی۔ جنگ ختم ہوئی تو برطانیہ نے وہ اعلان کیا جسے “اعلان بالفور”کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ اعلان 2نومبر 1917ء کو سامنے آیا اور اس میں سرزمین فلسطین یہودیوں کو بطور قومی و طن عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔

Palestine

Palestine

عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15مئی 1948ء کو کیا گیا ۔ تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جور اورسفاکیت و بربریت کا یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوجاتا ہے۔ توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا ،یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن،لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا ،اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

، ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن ،گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں جاری رکھیں ،دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے بہت زیادہ مالی و فوجی امداددی اور ہر قسم کا تعاون کیا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیا……اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کیئے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہوگیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کی جانے لگیں۔

لبنان میں اسرائیل کو 2006ء کی جنگ میں بری طرح شکست فاش سے دوچار کر کے اس کے غرور اور ناقابل تسخیر ہونے کے پراپیگنڈے کو زائل کر دیا ۔اس سے پہلے بھی لبنان میں امریکی ،فرانسیسی اور صیہونی فوجیوں کے خلاف خود کش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ لوگ دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطین میں جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا…… اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے والی تحریک غلیل سے ہوتی ہوئی کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔ 66برس میں فلسطینیوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں ،بارود کی بارش میں ،تاراجی اور بربادی میں ،منافق اور بزدل لیڈروں ،استعماری سازشوں ،خوراک کی قلت، محاصرے ،گھروں سے نکالے جانے اور مہاجر بنا دیئے جانے میں کیسے زندہ رہنا ہے ، اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں کیسے بدلنا ہے۔ استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں سے کیسے نمٹنا ہے اور استعمار کو کیسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرناہے۔شہادتوں کو کیسے اپنی قوت اور طاقت میں تبدیل کرنا ہے۔درد کو کیسے دوا بنانا ہے۔

Imam Khomeini

Imam Khomeini

امام خمینی جیسے عظیم رہنما کی بات پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرتی تو اسرائیل کا ناپاک وجود آج کہیں نظر نہ آتا انہوں نے بار ہا ان خطرات سے متوجہ کیااور برملا کہا کہ اگر تمام مسلمان ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر انڈیل دیں تو اس کا خاتمہ ہو جائے،انہوں نے ا یک موقعہ پر کہا کہ ،،اسلامی ممالک کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہئے کہ فساد کا یہ جرثومہ (صہیونی ریاست)، جس کو اسلامی سرزمینوں کے قلب میں تعینات کیا گیا ہے، صرف عرب اقوام ہی کو کچلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کا خطرہ اور ضرر پوری مشرق وسطی کو درپیش ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام پر صہیونیت کا غلبہ ہو اور اسلامی ممالک کی زیادہ سے زیادہ زرخیز اراضی کو استعمار کا نشانہ بنایا جائے اور صرف اسلامی حکومتوں کی جانفشانی، استقامت اور اتحاد کے ذریعے ہی استعمار کے سیاہ سپنے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور اگر اسلام کو درپیش اس حیاتی مسئلے میں کسی بھی حکومت نے کوتاہی کی تو دوسری حکومتوں پر لازم ہے کہ اس حکومت کو سزا دیں، اس سے تعلقات توڑ دیں اور دبائو ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کریں۔

تیل کی دولت سے مالامال اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ تیل اور دوسرے وسائل سے اسرائیل کے خلاف حربے (اور ہتھیار)کے عنوان سے استفادہ کریں اور ان ممالک کو تیل بیچنے پر پابندی لگائیں جو اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔؛؛آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کرکے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے 67برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں ،ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی ۔ گذشتہ برسوں میں ڈکٹر فتحی شقاقی ،شیخ احمد یٰسین ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں وہ مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے،ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے ۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں ،ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ،بزرگ،نوجوان،خواتین اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان میںمختلف اسلامی و سیاسی تنظیموں کی طرف سے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جمعة الوداع یعنی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو امام خمینی کے فرمان پر عمل پیرا ہو کر اس دن کو عالمی یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے اور پورے ملک میں جلسے، جلوس ،ریلیاں ،سیمینارز کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کی آواز کواقوام عالم تک پہنچانے کی سعی کی جاتی ہیایک رائے کیمطابق دنیا کی دوسری بڑی القدس عالمی ریلی کراچی میں نکالی جاتی ہے،یہ سلسلہ ہر سال پہلے سے زیادہ قوت اور شہامت کے ساتھ جاری رہتا ہے دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک کی فضائیں بھی مردہ باد اسرائیل کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی ہیں۔

ہر سو اسرائیلی پرچموں کو نذ ر آتش کر کے اس کے وجود کے خاتمے کا عزم دہرایا جاتا ہے اس دن مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے اور انہیں اس بات کا ااحساس دلایا جاتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ پوری دنیا میں مختلف اقوام و ملل کیطرف سے نکلنے والے مظاہروں ،ریلیوں اور احتجاجی جلوسوں سے استعمار کی یہ سازش بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہے جس کا مقصد اس مسئلہ کو عرب مسئلہ یا علاقائی مسئلہ بنا کر اسے محدود کرنا ہے۔

Jerusalem Mosque

Jerusalem Mosque

وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا کے نقشہ سے اس شیطانی جرثومے اور غدود کو نکال باہر کیا جائے گا تو امت مسلمہ بیت المقدس یعنی قبلہ اول میں نماز شکرانہ ادا کرے گی، اسرائیل کا وجود حرف غلط کی طرح مٹ جائے گااور دنیا پر امن و سلامتی کا راج ہو گا ۔۔۔۔ہم اس دن کے انتظار میں ہیں جب عالمی یوم القدس بھی فلسطین کے دارالخلافہ بیت المقدس میں ہو گا وہاں ہزاروں شہداء اور قربانیاں پیش کرنے والوں کی یادیں تازہ کی جائینگی اور انہیں خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے گا۔

تحریر : ارشاد حسین ناصر