ہمارا کشمیر تاریخ کے آئینے میں

Kashmir Violence

Kashmir Violence

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
23مارچ 1940ء قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظم اور انکے دیگر اکابرین مسلم لیگی ساتھی ہندوستان بھر میں طوفانی دوروں پر نکل کھڑے ہوں کہیں جلسے جلوس اور کہیں کانفرنس میٹنگیں شب و روز کی یہ محنت ومشقت۔ قائداعظم کا نحیف و نازک جسم برداشت نہ کر سکا اور وہ بیمار پڑ گئے۔ اکابرین ساتھیوں دوستوں اور ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آپ چند دن کے لئے کشمیر چلے جائیں۔ کشمیر کی پر فضاء وادی میں آپ صحت مند ہو کر لوٹیں گے ۔ چند دنوں میں قائد سرینگر پہنچے سارا کشمیر سرینگر امڈ پڑا سڑک کے دونوں اطراف سینکڑوں کشمیری کھڑے قائد کے استقبال میں پر جوش نعرے لگا رہے۔ قائد اعظم زندہ باد اسلام زندہ باد لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ ۔ استقباالیہ میں ایک سات آٹھ سالہ بچہ لمبا کرتہ پہنے بھی پر جوش نعرے لگا رہا تھا۔ قائد نے اسے دیکھ کر گاڑی رکوائی بچے سے مصافحہ کیا پوچھا پاکستان کیوں اور کس لئے بچے نے برجستہ جواب دیا ۔ پاک لوگوں کے لئے قائد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا سن لو خدا کی قسم اب پاکستان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ در حقیقت کشمیر کا بچہ بچہ مرد اور عورت ڈوگرہ مظالم کے ستائے ہوئے یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی ان کی قسمت کا فیصلہ بھی ہو پائے گا۔ مگر اس بد نصیب قوم کو کیا خبر تھی کہ ان کا مستقبل پہلے سے زیادہ تاریک ہو کر رہ جائے گا۔ ہندو بنیے اورغاصب انگریز مل کر انہیں آزادی نہیں پھر غلامی کی طرف دھکیلنے کی سازش رچا رہے ہیں۔ جولائی 1947کو گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ماونٹ بیٹن کی سربراہی میں حد بندی کمیشن نے جوڑ توڑ کانٹ چھانٹ کا عمل شروع کیا۔ نہرو اور پٹیل انگریز گورنر جنرل سے چمٹے رہے۔ گورنر جنرل ماونٹ بیٹن نے قائد اعظم سے فرمائش کی کہ ہندو رہنمائوں کی طرح آپ بھی مجھے پاکستان کا گورنر جنرل تسلیم کریں تاکہ حد بندی کا عمل احسن طریقے سے حل ہو۔ مگر نجانے کیوں قائد نے اور مسلم لیگی سیکرٹری جنرل لیاقت علی خان نے انکار کر دیا۔ اور قائد کے گورنر جنرل پاکستان کا اعلان کر دیا۔

ہمارے قائدین کے اس طرز عمل سے ماونٹ بیٹن آگ بگولہ ہو گیا۔ اور بولا کہ محمد علی جناح ایک برف کی سل ہیں انہیں کوئی نہیں پگلا سکتاپھر اسی غصے کے عالم میں اس نے راتوں رات کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں گورداسپور بٹالہ ، او ر ساتھ ہی پٹھان کوٹ کی تحصیلیں ہندوستان کے حوالے کردیں۔ جو کہ ہندوستان کا کشمیر تک کا واحد راستہ ثابت ہوا۔ صرف یہی نہیں ادھر منروز پور کی اور زیرہ کی تحصیلیں بھی جو کہ آٹھ اگست تک پاکستان کو دی جانی تھیں ہندوستان کو دے دی گئیں۔ ادھر حیدرآباد دکن اور منادر کی ریاستیں جن کی قیادت مسلم نوابوں کے پاس تھی انکا ممکنہ الحاق پاکستان سے تھا۔ ہندوستانی فوجوں کی چڑھائی کر کے زبردستی ہندوستان کے ساتھ الحاق بدل دیا گیا۔ قارئین اس وقت کے قائد کے نقادوں نے لکھا ہے کہ قائد اعظم اگر مائونٹ بیٹن کو پاکستان کا بھی گورنر جنرل تسلیم کر لیتے تو شائد ہمیں اسقدر کٹا پھٹا پاکستان نہ ملتا اور ممکن تھا کہ کشمیریوں کی کشمیری ساری ریاست کا پلڑا پاکستان کی جھولی میں آن گرتا اور کشمیریوں کے مقدر کا فیصلہ ہو جاتا۔ قارئین انگریز اور ہندوں رہنمائوں کے گٹھ جوڑ اور اس ناانصافی نے ڈوگرہ مہاراجہ کے مظالم نے کشمیریوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا نیم کشمیری فوجی دستے اور ان کی مدد کو آئے قبائلی مجاہدین دستے ڈوگرہ فوج کو پیچھے دھکیلنے آگے بڑھتے گئے آزاد ریاست کے موجودہ علاقے فتح کرتے سرینگر جا پہنچے ادھر پاکستان فوج جس کی قیادت انگریز جنرل گریسی کررہے تھے۔ قائد اعظم کے حکم کے باوجود کشمیر ی اور قبائلی مجاہدین کی مدد سے ہاتھ اٹھا بیٹھے سرینگر پہنچے ہوئے مجاہدین کو بے دست و پا ء اور بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ اس دوران ہندوستان افواج لارڈ مائونٹ بیٹن کی سازش سے دیئے گئے واحد راستے پٹھانکوٹ زیرہ اور گورداسپور کے ذریعے سرینگر پہنچا دی گئیں۔ مجاہدین تب بھی مصروف جہاد رہے ۔ مگر نہرو سلامتی کونسل جا پہنچے وہاں پاکستان کشمیری اور ہندوستان رائے شماری کا وعدہ وعید کرتے رہے یہ خالصتا عوامی جہاد بند کرادیا گیا۔ جس پر 1948ء میں پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان اور نہرو نے اپنے دستخط ثبت کر دیئے۔ جس کا قائداعظم کو بڑا صدمہ پہنچا ۔ اس طرح کشمیریوں کی اس آخری آزادی کی امید پر پانی پھر گیا۔ اس طرح کشمیریوں کی آزادی لب بام رہ گئی۔

قارئین یہاں بھی قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے نقاد ۔ ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ کہ انگریزوں کی بے وفائی نا انصافی کے باوجود انہوں نے پاکستانی افواج کی سرپرستی انگریزجنرل گریسی کو کیوں سونپی جس نے عین وقت پر محاذ کشمیر پر لڑنے اور مجاہدین کی مدد کو پہنچنے سے انکار کر دیا اور دو ہاتھ جام جب رہا تو نہرو کی باتوں میں آکر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ کشمیریوں کی غلامی کو مزید مقدر بنا دیا۔ دیکھا جو تیر کھا کر پیٹھ میں اپنوں سے ملاقات ہو گئی۔ کشمیر تین حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ رائے شماری کا وعدہ ایفا ہوا نہ ہی کوئی قابل قبول حل نکل سکا۔ قارئین یاد رہے جب مجاہدین کی جنگ زوروں پر تھی تب کشمیری قائدین جن میں شیخ عبداللہ چوہدری غلام عباس اور سردار محمد ابراہیم جو نمایاں لیڈر تھے کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار نہ کر سکے۔ چوہدری غلام عباس اور سردار محمد ابراہیم خان ڈوگرہ افواج سے آنکھ بچا کر آزاد علاقے جونجال ہل کے مقام پر پہنچے اور آزاد حکومت کا اعلان کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ شیخ عبداللہ جو کہ کئی سال ڈوگرہ حکومت کی قید میں رہے تھے بقول ان کے وہ ساری ریاست کشمیر کی آزاد حیثیت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے داعی تھے یہاں کے قائدین سے بدظن ہو گئے۔ جو کہ ہندوستانی حکومت کا قبضہ مضبوط ہونے ہپر وہ اور مہاراجہ دلی لے جا کر اس پار جموں و کشمیر کا الحاق قصداً یا جبراً ہندوستان کے ساتھ کر بیٹھے جس سے ہندوستان کو عملا کشمیر پر قبضے پر سند حاصل ہو گئی۔ بعد میں کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کی دعوت پر شیخ عبداللہ اسلام آباد آئے روائیت کے مطابق کشمیری لیڈر پاکستان اور ہندوستان ایک نئے معاہدے پر متفق ہوئے جس پر عین سائن ہونے کے موقع پر نہرو کی وفات ہو گئی۔ اور شیخ عبداللہ بغیر دستخط کئے واپس ہندوستان سدھار گئے۔ پھر دونوں اطراف اقتدار کی میوزیکل چیئر چل پڑی ادھر شیخ عبداللہ اور اس کا خاندان ادھر ہمارے سردار برادران کا اقتدار باری بار ی شروع ہوا۔ جو نصف صدی تک جاری رہا۔ اس دوران 1965ء 1971ء اور پھر کارگل کی تین جنگیں ہوئیں۔ جن میں ہم کچھ اور حاصل کرنے کے بجائے پہلے سیاچن پھر خاکی اور چاند ٹ ٹیکری جیسے اونچے محاذ ہندوستان کے قبضے میں دے بیٹھے۔ آخر میں کارگل کی اونچی ٹیکری بھی امریکی ایما پر ان کے حوالے کر دی گئی۔

Ireland and Britain Flag

Ireland and Britain Flag

گزشتہ صدی میں دنیا بھر کے تنازعات حل کئے گئے۔ جرمنی دونوں اگھٹے ہوئے۔ آئرلینڈ و برطانیہ کا قضیہ حل ہوا۔ دونوں یمن آپس میں مل بیٹھے۔ کوسوو بوسنیا اور کروشیا کے تنازعات حل ہو گئے۔ روس چیچنیا تنازعہ بھی حل ہوا۔ اور صرف تھوڑی سی جدوجہد کے بعد مشرقی تیمور دار قور اور انڈونیشیاء کے صوبے بالی کے عیسائیوں کو آزادی دلوائی گئی۔ مگر فلسطین اور کشمیر دو مسلمان ریاستوں کو آزادی نہ مل سکی۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی حل دیکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف ہٹ دھرم یہودی ہیں تو دوسری طرف مکار ہندو حکمران اس پار کشمیر ان کا اٹوٹ انگ ہے۔ تو اس طرف پاکستان کی یہ شہ رگ ہے۔ دو تہائی کشمیر ہندوستان کے قبضے میں اور کچھ حصہ چین کے پاس چلا گیاہے۔ 1970ایکٹ اور کراچی پیکٹ کے ذریعے بوجوہ انتظامی امور رابطے کے فقدان اور مالی مشکلات کی بنا پر کشمیری ریاست کا ایک بڑا حصہ گلگت بلتستان پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ جو کہ گزشتہ عشرے میں پاکستان کا چھٹا صوبہ بنا دیا گیا۔ باقی آزاد ریاست میں پارلیمانی حکومت موجود ہے۔ جس میں پاکستانی سیاسی پارٹیاں بھی عملا شریک کار ہیں انتخابات کی مار دھاڑ ہر پانچ سال بعد شروع ہوتی ہے۔ ہر سال بجٹ پاکستان سے آتا ہے۔ جو کہ تنخواہوں مشائیروں سے اگر کچھ بچ جائے تو ریاست کی تعمیر و ترقی ورنہ باہر سے یورپ امریکہ اور عرب ریاستوں سے کمائو یہاں بیٹھ کر کھائو۔ نہ صنعتوں کا قیام نہ سیاحتی مراکز کی طرف دھیا ن گزشتہ دو عشروں سے بڑی شاہراہوں کالجوں یونیورسٹیوں اور چھوٹے بڑے ڈیموں کا کچھ کام ہوا ہے وگرنہ گزشتہ نصف صدی میں اس طرف کوئی دھیان نہ دیا گیا۔

ریاستی جماعتوں نے چھوٹے چھوتے سکول کالجوں کا اور دوسرے اداروں میں ملازمتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں۔ اب آبادی بڑھ چکی ہے۔ بیرون ملک سے مزدور واپس آرہے ہیں۔ بے روزگاری کا اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے۔ صنعتی یونٹ اب بھی قائم نہیں ہو رہے۔ ہاں ریاست کی خوبصورت سر سبز پہاڑ چیڑ دیار بیاڑ ھ کے اونچے درخت قدرتی چشمے آبشاریں ، وادیاں جنت نظیر پیش کر رہے ہیں۔ اللہ کرے اس کا یہ حسن خوبصورتی تا قیامت قائم رہے۔ مگر اس پار مظلوم کشمیریوں کی حالت زار پر عام آدمی خون کے آنسو روتے ہیں۔ جو 1988سے آزادی کی تحریک اپنی مدد آپ شروع کئے ہوئے ہیں۔ ہماری کوئی مدد نہ امدا د چار لاکھ کے قریب کشمیری قربان ہو چکے ہیں۔ اب تیسری نسل غاصب آٹھ لاکھ ہندو افواج سے نبرد آزما گائوں کے گائوں ویران ہو چکے ہیں۔ گھر گھر بھوک پیاس نے ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ مگر ہندو غاصب کے اس ظلم پر دنیا بھر کی نام نہاد انسان دوست تنظیمیں ادارے ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ دونوں جوہری ممالک کے بیچ مظلوم کشمیری گھبن کی طرح پس رہے ہیں۔

ادھر پہلے پی پی پی کی حکومت تھی اور اب ن لیگ کی دو تہائی اکثریتی حکومت قائم ہے۔ اس پار پہلے شیخ عبداللہ ، فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ پھر مفتی سعید اور اسکی نسل اقتدار کے نشے لے رہی ہے۔ ایسے میں آزادی کہاں کی آزادی دلی دوراست مگر کشمیری اب بھی ناامید نہیں وہ پر عزم ہیں۔ اے وادی کشمیر تیری جنت میں آئیں گے اک دن ۔ مگر کیا کریں ہمار ے نادان سابق حکمرانوں نے کشمیریوں کی عارضی کنٹرول لائن کو مستقل تسلیم کر کے باڑھ لائن اور دیوار ہند کھڑی کروادی ہیں۔ انا اللہ ونا الیہ راجعون۔

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
hajizahid.palandri@gmail.com