بادشاہ سلامت تاقیامت زندہ رہو

Old King

Old King

تحریر : مقصود انجم کمبوہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بادشاہ سلامت نے اپنے مشیر خاص کو حکم دیا کہ وہ آئیندہ اتوار مشرقی جنگلوں میں شکار کیلئے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا وہ سپہ سالار کو ہدائت کر دے کہ فوج کو الرٹ کر دیا جائے اور بعض سپاہیوں کو اپنے گھوڑوں کی لگامیں سیدھی کرلینے کا حکم جاری کر دے سازو سامان بھی تیار رہے مشیر خاص نے فوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دیر نہیں ہونی چاہیے اور صبح چار بجے قافلہ روانہ ہو جانا چاہیے ،بادشاہ سلامت کی سواری کی تزئین و آرائش کیلئے بھی خصوصی حکم جاری کر دیا گیا اتوار کی صبح چار بجے قافلے کی روانگی کا طبل بجا دیا گیا اور بادشاہ سلامت آگے آگے اور قافلہ پیچھے پیچھے رواں دواں ہو گیا۔

ایک گائوں سے گزرتے ہوئے ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا عورتیں اپنا سر پیٹ رہی تھیں اور وقت کے بادشاہ کو برا بھلا کہہ رہی تھیں مشیر خاص نے راستہ تبدیل کرنا چاہا مگر بادشاہ نے منع کر دیا اور کہا کہ مجھے ان عورتوں کے مسائل سننے کا موقع ملنا چاہیے سو عورتوں سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے گائوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہر سرکاری وغیر سرکاری اہلکاران کے خاندان سے طرح طرح کے ٹیکس وصول کر رہا ہے اور بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے پٹواری ،صحت ،صفائی کے اہلکار جمع دار حتی کہ یونین کونسل کے اہلکار ان کی جیبوں کو نقب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بچے کی پیدائش ہو یا کوئی مرگ ہو جائے ان کے وارے نیار ے ہو جاتے ہیں یہا ں تک کہ اس علاقہ کے مولوی حضرات نے بھی مذہب کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ دراز کرر کھا ہے۔

قافلہ آگے بڑھا تو اسی نوع کا منظر دوسرے گائوں میں بھی وقوع پذیر ہوا بادشاہ سلامت کو شکار بھول گیا اور انہوں نے واپسی کا حکم دے ڈالا ابھی اس گائوں سے باپر نکلے تھے کہ گدھوں کی ایک لمبی قطار دیکھی مجال کہ کوئی گدھا قطار سے باہر نکلتا دکھائی دیا ہو کمہار کے دائیں کندھے پر ایک ڈنڈا تھا وہ رمکے رمکے پیچھے چلتا جا رہا تھا بادشاہ سلامت یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشیر خاص کو حکم دیا کہ اس کمہار کو ہدائت کی جاوے کہ وہ کل یعنی سوموار کو گیارہ بجے اس کے دربار میں حاضر ہو لہذا مشیر خاص نے کمہار کو یہ تاکید کر دی کہ وہ ہر حال میں وقت پر پہنچے ورنہ گردن اُڑا دی جائے گی۔

King

King

کمہارر بیچارہ رات بھر سو نہ سکا صبح تیاری کر کے گیارہ بجے سے پہلے دربار میں حاضر ہو گیا بادشاہ سلامت نے مشیر خاص سے کہا کہ وہ عرضی نویس قریشی برادران کو حکم دے کہ وہ ایک وصیت نامہ تیار کریں جس میں یہ لکھا جائے کہ بادشاہ سلامت کی وفات کے فورابعد مذکورہ کمہار بادشاہ سلامت کی جگہ بادشاہت کے فرائض سرا نجام دے گا سو وصیت نامہ جاری کردیا گیا ایک نقل کمہار کے حوالے کر دی گئی کمہار کاپی لے کر اپنے گھر پہنچا تو سارا خاندان بادشاہت کے نشے میں چور ہو گیا ہر طرف شادیانے بجنے لگے پورا گائوںکمہار کے گھر مہمان بن گیا ،جب رات ہوئی تو کمہار نے نرم بستر بچھانے کا حکم دیا تو گھر والوں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے محلہ کے ایک بڑے خاندان کے گھر سے مخمل کا بستر منگوالیا رات کو اس نرم و نازک بستر پر سوتے کمہار کو ایک خواب نے آن لیا خواب میں وہ وفات پا جاتا ہے اسے لحد میں اتار کر قبر پر مٹی ڈال دی جاتی ہے پھر فرشتے حساب کتاب لینے آ ٹپکتے ہیں۔

فرشتے نے جب اس سے گدھے پر ظلم و جبر کا حساب لیتے ہوئے گورز برسائے تو دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور کہنے لگا بس جی غلطی ہوگئی اسی اثناء میں کمہار کا دروازہ کھڑکتا ہے وہ خواب خرگوش سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے پھر اسے رات بھر خوف کے مارے نیند نہیں آئی صبح ہونے کے انتظار میں اس کا وزن کم سے کم ہوتا گیا پھر بستر سے اُٹھتے ہی بادشاہ سلامت کے دربار میں جا پہنچا۔

وصیت نامہ واپس کرتے ہوئے بادشاہ سلامت سے کہا کہ وہ مجھے معاف کر دے میں اس قابل نہیں کہ بادشاہت کا بوجھ اُٹھا سکوں اس نے رات کو آنے والے خواب کی حقیقت سنائی اور رونے لگا کمہار نے کہا کہ میں تو ایک گدھے پر جبر کا حساب چکانے سے قاصر تھا تو پوری سلطنت کے جبر و زیادتی کا حساب مجھ سے کیسے دیا جائے گا یہ میرے بس کی بات نہیں میرے بادشاہ سلامت خدا کرے تو قیامت تک سلامت رہے اور آپکی جگہ کوئی نہ لے سکے اس وقت آوے کا آواء ہی بگڑا ہوا ہے۔

Politics

Politics

عوام اور سیاستدان دونوں کرپٹ ہیں اور کرپٹ مافیا کا راج ہے لوٹ مار عروج پر ہے بیورو کریسی ،پولیس کے علاوہ ہر محکمہ کے اہلکاران و افسران دولت اکھٹی کرنے کے درپے ہیں آف شور کمپنیوں کے راز کھلتے جا رہے ہیں ہزاروں ،تاجر ،صنعتکار ،سرمایہ کار ،سیاستدان افسران اور حکمران پانامہ لیکس کی ہٹ لسٹ پر ہیں انصاف ناپید ہو چکا ہے بہت سے غریب ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی ہیں فاقوں سے لوگ مر رہے ہیں پنشن خواروں کو دو سال سے اضافی پنشن ادا نہیں کی جاتی وہ فاقے کاٹ کاٹ کر ہلکان ہو جاتے ہیں ان بیچاروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ہر طرف بدمعاشی ہے غربت کا راج ہے پٹواریوں سے ابھی تک چھٹکارا نہیں مل رہا۔

عدالتیں اور تھانے عوام کے کپڑے اتار رہے ہیں ظلم و جبر اور زیادتی کا ہر طرف راج ہے ان حالات میں میرے جیسا کمہار گدھوں پر ہونے والے ظلم کا حساب دینے سے قاصر ہے تو اتنی بڑی سلطنت کے ظلم و زیادتی کا حساب کیسے دے گا بادشاہ سلامت نے ایک قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ پاگل کمہار اتنی سی بات سے گھبرا گئے ہو ،یہ تو خواب تھا پاگلوں کو ایسے خواب آنا کوئی بڑی بات نہیں میں ابھی زندہ ہوں میری رعایا میرے لیے دعا گو رہے گی۔

کیونکہ میرے جیسا رحم دل بادشاہ عوام کو کبھی نہیں ملے گا ظلم و جبر جو بھی کرے گا اس کا حساب اسے چکانا ہو گا ۔آج کے بعد سب کے احتساب کا نظام سپہ سالار کے سپرد کردوں گا اور اسے کل و ہم اختیارات سونپ دوں گا اگر اس نے اپنے فرائض نیک نیتی سے ادا نہ کئے تو اللہ تعالیٰ کو جواب بھی وہی دے گا ،کمہار جی تم جائو اپنے گدھوں پر ہی حکمرانی کے فرائض ادا کرو اور سلامت رہو تا قیامت رہو۔

Maqsood Anjum

Maqsood Anjum

تحریر : مقصود انجم کمبوہ