غزل

صبحوں کے خواب رات کے پیالے میں ڈال کر
ہم خوش گماں ہیں آستیں میں سانپ پال کر

ترکِ تعلقات بھی لازم ہوا مگر
جینا محال ہے تجھے دل سے نکال کر

بیٹھے ہیں منتظر تیرے مہر و خلوص کے
ساقی ہماری پیاس کا کچھ تو خیال کر

اِس عہدِ کم شناس کے بازارِ حِرص میں
سب کچھ لٹا دیا کوئی اگلا سوال کر

چومیں گے ذوق و شوق سے ساحل کی ریت کو
دریا اترنے والا ہے موجیں اچھال کر

GHAZAL

GHAZAL

ساحل منیر