آپریشن ضربِ آہن

Nisar, Raheel and Shahbaz

Nisar, Raheel and Shahbaz

تحریر : محمد اشفاق راجہ
پنجاب میں دہشتگردوں اور اْن کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لئے پوری طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اْن کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہو گی، دہشت گردوں کے خلاف فوج، رینجرز، سی ٹی ڈی، پولیس اور سول و خفیہ ادارے مشترکہ آپریشن کریں گے۔ موثر آپریشن کے لئے مربوط سیکیورٹی طریقہ کار کے نظام کو فعال بنا دیا گیا۔ جائنٹ آپریشن کو آرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمیٹی آپریشن کی نگرانی کرے گی اور جائزہ لے گی۔ یہ نظام ڈویڑن اور ضلع کی سطح پر کام کرے گا۔ پنجاب سے دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔

اہداف کے حصول کے لئے طاقت کا بھرپور استعمال کیا جائے گا کسی بھی آپریشن کے ہدف کے مطابق مناسب فورس استعمال کی جائے گی، اجلاس میں اِس عزم کا اظہار کیا گیا کہ مربوط منصوبہ بندی اور آپریشنز کے ذریعے پنجاب میں دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب میں دریا کے ساتھ کچے کے علاقے میں اعلانات کئے گئے ہیں کہ مقامی آبادی علاقہ خالی کر دے۔ راجن پور کی تحصیل روجہان میں بڑے پیمانے پر ”ضربِ آہن” کے نام سے آپریشن جاری ہے۔

آئی جی پنجاب نے بھی علاقے کا دورہ کیا اور فرنٹ لائن پر لڑنے والے پولیس کمانڈوز کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا چونکہ اِس علاقے میں کافی آبادی موجود ہے اِس لئے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔دہشت گردوں کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہوتا وہ جہاں اپنے لئے حالات ساز گارپاتے اور جہاں اْنہیں سہولت کار مل جائیں وہ وہیں اپنی کمین گاہیں بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Army Chief

Army Chief

اب شمالی وزیرستان میں اْن کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے اور ایک محدود سے علاقے میں کارروائی کر کے اْن کا صفایا کیا جا رہا ہے، ان کی کمین گاہیں اور تربیت گاہیں پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں، اسلحے کے ذخائر اور فیکٹریاں بھی تباہ کی جا چکی ہیں، دورانِ آپریشن بہت سے دہشت گرد مارے گئے ان میں بعض افغانستان فرار ہو گئے اور اب وہاں سے اِکا دْکا کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ دہشت گرد مْلک کے مختلف حصوں میں پھیل کر وہاں چھپنے کے لئے ٹھکانے بنا رہے ہیں۔جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں بھی ان کے ٹھکانے تھے اسی لئے وہاں آپریشن کا آغاز کیا گیا، کراچی میں چونکہ دو سال سے آپریشن جاری ہے اِس لئے وہاں سے بھی جو دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے انہوں نے بھی یا تو اندرونِ سندھ کا رْخ کیا یا پھر وہاں سے ہوتے ہوئے پنجاب کے ایسے علاقوں میں روپوش ہو گئے جو دریا کے ساتھ ساتھ کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔

ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں، جن کی تاحال تصدیق نہیں ہو سکی کہ بعض دہشت گرد آپریشن سے بچ کر فرار کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن جس انداز سے یہ آپریشن جاری ہے اب لگتا ہے اْن کے فرار کے راستے بھی مسدود ہو گئے ہیں۔جہاں تک دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا تعلق ہے وہ معاشرے کے اندر موجود ہیں اور حیران کن بات ہے کہ وہ بعض مساجد کو بھی اپنی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، گلشنِ اقبال پارک میں دھماکہ کرنے والے دہشت گرد کے متعلق ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ اْس نے دھماکے سے قبل ایک مسجد میں پناہ لی ایک امام مسجد اور اس کے موذن بیٹے نے اْس کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا، جو گرفتار کرلئے گئے ہیں یہ تو تفتیش کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ اس امر میں کتنی صداقت ہے۔

لیکن اگر یہ سچ ہے تو ہمارے لئے لمح?? فکریہ ہے کہ جو امام مسجد پانچ وقت نمازوں کی امامت کرتا اور جس کا بیٹا اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے لوگوں کو نماز کے لئے بْلاتا تھا کیا وہ اتنے پتھر دل تھے کہ انہوں نے معصوم بچوں کی جانیں لینے والے ایک دہشت گرد کو مسجد کے اندر پناہ دی ایسی صورت میں تو یہ لوگ اس کے جرم میں برابر کے شریک ہیں، لیکن جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ غیر مسلموں کی کارروائی ہو سکتی ہے، کوئی مسلمان اِس طرح کی حرکت نہیں کر سکتا وہ اپنے طرزِ فکر کی اصلاح کر لیں اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے راست فکری اختیار کر لیں، بصورتِ دیگر وہ گمراہی میں مزید پختہ ہوتے جائیں گے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان گمراہ لوگوں کے دِلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے۔

Rangers

Rangers

دہشت گردوں کے خلاف جنوبی پنجاب کے جس علاقے میں آپریشن ہو رہا ہے وہاں سے فرار ہونے میں کامیابی حاصل کرنے والے ایسے علاقوں میں سہولت کار تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، جو گنجان آباد شہروں میں واقع ہوں اور جن کے متعلق گمان بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں بھی آپریشن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے،اس لئے معاشرے کے ہر فرد کو اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داری زیادہ ہوش مندی سے نبھانا ہو گی اور اپنے گردو پیش ہر قسم کے لوگوں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنا ہوگی، اپنے شہر، گاؤں ، محلے اور گلی میں اجنبی لوگوں کے چہروں کو پہچاننا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ اْن کی مصروفیات کس نوعیت کی ہیں، مشکوک چال چلن اور مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا ضروری ہے۔ مساجد کے امام اور موذن تک اگر دہشت گردوں کے لئے سہولت کاری کریں گے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں نے اپنی جڑیں کہاں تک پھیلا رکھی ہیں۔

وفاقی سطح پر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ لوگوں کا ایک ایسا ڈیٹا جمع کرنے کی ضرورت ہے جو تمام صوبائی حکومتوں کے پاس محفوظ ہواور بوقت ضرورت یہ معلوم ہوسکے کہ ایک صوبے کے دہشت گرد اور جرائم پیشہ لوگ کن حالات میں دوسرے صوبوں میں چلے جاتے ہیں، سندھ میں آپریشن کے آغاز کے بعد جرائم پیشہ عناصر فرار ہوکر پنجاب میں آگئے تھے۔ اب اگرپنجاب میں آپریشن کے بعد یہ لوگ خیبر پختونخوا یا بلوچستان میں چلے گئے تو صوبائی حکومتیں ان کے مجرمانہ پس منظر سے بے خبر ہوں گی، اس لئے ایک ایسی فہرست بننی چاہئے جس کا تمام صوبوں کے درمیان تبادلہ ہو جائے تاکہ جرائم پیشہ لوگ اپنے صوبے سے باہر خود کو محفوظ تصور نہ کریں ایک اور بات کی جانب توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ کراچی میں جو لوگ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں ان کا پس منظر جنوبی پنجاب کے دہشت گردوں سے مختلف ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی کے محرکات سیاسی اور معاشی ہیں۔

بھتہ خوری کے لئے بھی دہشت گردی کی جاتی ہے کراچی میں یہ دھندا پہلے عروج پر تھا جو اب کم ہوگیا ہے پنجاب کی دہشت گردی کے محرکات زیادہ تر مذہبی ہیں اسی لئے دہشت گردوں کے سہولت کار بھی مساجد سے مل رہے ہیں۔ چند روز پہلے کراچی میں ڈی جی رینجرز نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی اور حکومت نے اجازت دی تو اندرونِ سندھ بھی آپریشن کیا جائے گا۔ اب پنجاب میں جاری ”ضربِ آہن” آپریشن سے بچ کر جانے والے ممکن ہے دوسرے شہروں یا پھر پنجاب سے ملحقہ سندھ کے علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کریں اِس لئے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ اگر معاشرہ مجموعی طور پر اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کرے گا اور دہشت گردوں کو گلی محلوں میں چھپنے نہیں دے گا تو جلد ہی معاشرے کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ سیکیورٹی اداروں کے ارکان اِس سلسلے میں جو عظیم قربانیاں دے رہے ہیں پوری قوم اْن کی معترف ہے اور انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجہ