بلبیر سنگھ سے محمد عامر تک کا سفر

asim ayaz

asim ayaz

میرا تعلق صوبہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے ایک گاؤں سے ہے میرے والد صاحب ایک اچھے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرائمری اس کول میں ہیڈ ماسٹر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے اور انسانیت دوستی ان کا مذہب تھا، میرا پیدائشی نام بلبیر سنگھ تھا اپنے گاں کے اسکول سے میں نے ہائی اسکول کرکے انٹرمیڈیٹ میں پانی پت میں داخلہ لیا، پانی پت شاید بمبئی کے بعد شیوسینا کا سب سے مضبوط گڑھ ہے وہاں میری دوستی کچھ شیوسینکوں سے ہوگئی اور میں نے بھی پانی پت شاکھا میں نام لکھا لیا، پانی پت کے اتہاس تاریخ کے حوالے سے وہاں نوجوانوں میں، مسلمانوں خاص طور پر بابر اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بڑی نفرت گھولی جاتی تھی، میرے والد صاحب کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا کہ میں شیو سینا میں شامل ہوگیا ہوں تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا، انہوں نے مجھے اتہاس کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی، انہوں نے بابر خاص طور پر اورنگ زیب کی حکومت کے انصاف اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے عمدہ سلوک کے قصے سنائے اور مجھے بتانے کی کوشش کی کہ انگریزوں نے غلط تاریخ ہمیں لڑانے کے لئے اور دیش کو کمزور کرنے کے لئے گھڑ کر تیار کی ہے۔

 

پھر اسی دوران 1990 میں ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میں مجھے پانی پت کے پروگرام کی خاصی بڑی ذمہ داری سونپی گئی رتھ یاترا میں ان ذمہ داروں نے ہمارے روئیں روئیں میں مسلم نفرت کی آگ بھر دی میں نے شیواجی کی سوگندھ کھا ئی کہ کوئی کچھ بھی کرے میں خود ا کیلے جاکر رام مندر پر سے اس ظالمانہ ڈھانچہ کو مسمار کروں گا، اس یاترا میں میری کارکردگی کی وجہ سے مجھے شیو سینا کے یوتہ ونگ کا صدر بنا دیا گیا۔

 

ایک ایک دن کر کے وہ منحوس دن قریب آیا جسے میں اس وقت کاخوشی کا دن سمجھتا تھا میں اپنے کچھ جذباتی ساتھیوں کے ساتھ ایک دسمبر کو پہلے ایودھیا پہنچا میرے ساتھ سونی پت کے پاس ایک جاٹوں کے گاوں کا ایک نوجوان یوگیندر پال بھی تھا جو میرا سب سے قریبی دوست تھا، اس کے والد ایک بڑے زمیندار تھے اور وہ بھی بڑے انسان دوست آدمی تھے، انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ایودھیا جانے سے بہت روکا مگر وہ نہیں رکا۔ اوما بھارتی نے بھاشن دیا اور کارسیوکوں میں آگ بھر دی میں بھاشن سنتے سنتے مکان کی چھت سے اتر کر کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گیا، یوگیندر بھی میرے ساتھ تھا، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا، ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو، بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور میں نے بیچ والے گنبد پر کدال چلائی اور بھگوان رام کی جے کے زور زور سے نعرے لگائے، دیکھتے دیکھتے مسجد مسمار ہوگئی، مسجد کے گرنے سے پہلے ہم لوگ نیچے اتر آئے، ہم لوگ بڑے خوش تھے رام للا کے لگائے جانے کے بعد اس کے سامنے ماتھا ٹیک کر ہم لوگ خوشی سے گھر آئے اور بابری مسجد کی دو دو اینٹیں اپنے ساتھ لائے، جو میں نے خوشی خوشی پانی پت کے ساتھیوں کو دکھائیں، وہ لوگ میری پیٹھ ٹھونکتے تھے، شیو سینا کے دفتر میں وہ اینٹیں رکھ دی گئیں اور میں نے گھر بھی خوشی سے جاکر بتایا میرے پتا جی بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مجھ سے صاف کہہ دیا کہ اب اس گھر میں تو اور میں دونوں نہیں رہ سکتے، اگر تو رہے گا تو میں گھر چھوڑ کر چلاجاں گا نہیں تو تو ہمارے گھر سے چلاجا، مالک کے گھر کے ڈھانے والے کی میں صورت دیکھنا نہیں چاہتا، میری موت تک تو مجھے کبھی صورت نہ دکھانا مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پانی پت میں جو سمان عزت مجھے اس کارنامہ پر ملا وہ بتانے کی کوشش کی انھوں نے کہا کہ یہ دیش ایسے ظالموں کی وجہ سے برباد ہوجائے گا اور غصہ میں گھر سے جانے لگے، میں نے موقع کو بھانپا اور کہا آپ گھر سے نہ جائیے میں خود اس گھر میں رہنا نہیں چاہتا جہاں رام مندر بھگت کو ظالم سمجھا جاتا ہو اور میں گھر چھوڑ کر آگیا اور پانی پت میں رہنے لگا۔

 

میرے اللہ کیسے کریم ہیں کہ ظلم اور شرک کے اندھیرے سے مجھے، نہ چاہتے ہوئے، اسلام کے نور اور ہدایت سے مالا مال کیا، مجھ جیسے ظالم کو جس نے اس کا مقدس گھر شہید کیا ہدایت سے نوازا، ہوا یہ کہ میرے دوست یوگیندر نے بابری مسجد کی اینٹیں لاکر رکھیں اور مائک سے اعلان کیا کہ رام مندر پر بنے ظالمانہ ڈھانچہ کی اینٹیں سوبھاگیہ خوش قسمتی سے ہماری تقدیر میں آگئی ہیں سب ہندو بھائی آکر ان پر موت دان پیشاب کریں، پھر کیا تھا،بھیڑ لگ گئی، ہر کوئی آتا تھا اور ان اینٹوں پر حقارت سے پیشاب کرتا تھا مسجد کے مالک کو اپنی شان بھی دکھانی تھی چار پانچ روز کے بعد یوگیندر کا دماغ خراب ہوگیا، پاگل ہوکر وہ ننگا رہنے لگا، سارے کپڑے اتاراتھا، وہ عزت والے زمیندار چودھری کا اکلوتا بیٹا تھا، اس پاگل پن میں وہ بار بار اپنی ماں کے کپڑے اتار کر اس سے منھ کالا کر نے کو کہتا، بار بار اس گندے جذبہ سے اس کو لپٹ جاتا ایک روز تو اس نے اپنی ماں کے ساتھ گندی حرکت کرنی چاہی، اس نے شور مچایا دیا، محلہ والے آئے، تو جان بچی، اس کو زنجیر میں میں باند ھ دیا گیا، یوگیندر کے والد عزت والے آدمی تھے، انھوں نے اس کو گولی مارنے کا اراد ہ کرلیا کسی نے بتایا کہ یہاں بوانہ میں ایک مدرسہ ہے وہاں بڑے مولانا صاحب آتے ہیں، آپ ایک دفعہ ان سے اور مل لیں، اگر وہاں کوئی حل نہ ہو تو پھر جو چاہے کرنا چودھری رگھو بیر صاحب یو گیندر کو لے کر صبح 8 بجے بوانہ پہنچ گئے، دوپہر کو ظہر سے پہلے مولانا صاحب آئے، یو گیندر زنجیر میں بندھا ننگ دھڑنگ کھڑا تھا، چودھری صاحب روتے ہوئے مولانا کے قدموں میں گر گئے اور بولے کہ مولانا صاحب میں نے اس کمینہ کو بہت روکا، مگر یہ پانی پت کے ایک اوت کے چکر میں آگیا مولانا صاحب مجھے شما کرا دیجئے میرے گھر کو بچا لیجئے مولانا صاحب نے سختی سے انہیں سر اٹھانے کے لئے کہا اور پورا واقعہ سنا۔انہوں نے چودھری صاحب سے کہا کہ سارے سنسار کو چلانے والے سرو شکتی مان قادر مطلق خدا کا گھر ڈھا کر انہوں نے ایسا بڑا پاپ ظلم کیا ہے کہ اگر وہ مالک سارے سنسار کوختم کردے تو ٹھیک ہے، یہ تو بہت کم ہے کہ اس اکیلے پر پڑی ہے، ہم بھی اس مالک کے بندے ہیں اور ایک طرح سے اس بڑے گھنگھور پاپ بڑے گناہ میں ہم بھی قصوروار ہیں کہ ہم نے مسجد کو شہید کرنے والوں کو سمجھانے کا حق ادا نہیں کیا، اب ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے بس یہ ہے کہ آپ بھی اس مالک کے سامنے گڑ گڑائیں اور شما مانگیں اور ہم بھی معافی مانگیں، مولانا صاحب نے کہا، جب تک ہم مسجد میں پروگرام سے فارغ ہوں آپ اپنے دھیان کو مالک کی طرف لگا کر سچے دل سے معافی مانگیں اورپرارتھنا دعا کریں کہ مالک میری مشکل کو آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہٹا سکتا۔

 

مولا نا صاحب مسجد میں گئے، نما ز پڑھی تھوڑی دیر تقریر کی اور دعا کی، مولانا صاحب نے سبھی لوگوں سے چودھری صاحب کے لئے دعا کو کہا مسجد سے باہرنکلے تو مالک کا کرم کہ یوگیندر نے اپنے باپ کی پگڑی اتار کر اپنے ننگے جسم پر لپیٹ لی تھی اورٹھیک ٹھاک اپنے والد صاحب سے بات کررہا تھا، سب لوگ بہت خوش ہوئے مولانا صاحب میری سات پشتیں آپ کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتیں، آپ کاغلام ہوں، جہاں چاہیں آپ مجھے بیچ سکتے ہیں، چودھری صاحب کو مسجد میں لے جانے لگے، تو یوگیندر نے پوچھا پتا جی کہاں جارہے ہو انھوں نے کہا مسلمان بننے، تو یوگیندر نے کہا، مجھے آپ سے پہلے مسلمان بننا ہے اور مجھے تو بابری مسجد دوبارہ ضرور بنوانی ہے، خوشی خوشی ان دونوں کو وضو کرایا اور کلمہ پڑھوایا گیا، والد صاحب کا محمد عثمان اور بیٹے کا محمد عمر نام رکھا گیا، خوشی خوشی وہ دونوں اپنے گاؤں پہنچے وہاں پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے، اس کے امام صاحب سے جاکر ملے، امام صاحب نے مسلمانوں کو بتا دیا، بات پورے علاقہ میں پھیل گئی، ہندوں تک بات پہنچی، تو قوت دار لوگوں کی میٹنگ ہوئی اور طئے کیا کہ ان دونوں کو رات میں قتل کروایا جائے، ورنہ نہ جانے کتنے لوگوں کا دھرم خراب کریں گے، اس میٹنگ میں ایک مرتد بھی شریک تھا اس نے امام صاحب کو بتا دیا، اللہ نے خیر کی ان دونوں کو راتوں رات گاؤں سے نکالا گیا، پھلت گئے اور بعد میں جماعت میں چالیس دن کے لئے چلے گئے، یوگیندر نے پھر امیر صاحب کے مشورہ سے تین چلے لگائے، بعد میں ان کی والدہ بھی مسلمان ہوگئیں، محمد عمر کی شادی دہلی میں ایک اچھے مسلمان گھرانے میں ہوگئی اور وہ سب لوگ خوشی خوشی دہلی میں رہ رہے ہیں گاں کا مکان اور زمین وغیرہ بیچ کر دہلی میں ایک کارخانہ لگا لیا ہے۔

 

اصل میں میرے قبول اسلام کو اس کہانی سے الگ کرنا ممکن نہیں، اس لئے میں نے اس کا پہلا حصہ سنایا، اب آگے دوسرا حصہ سن لیجیے، 9مارچ 1993 کو اچانک میرے والد کا ہارٹ فیل ہوکر انتقال ہوگیا، ان پر بابری مسجد کی شہادت اور اس میں میر ی شر کت کابڑا غم تھا، وہ میری ممی سے کہتے تھے کہ مالک نے ہمیں مسلمانوں میں پیدا کیوں نہیں کیا، اگر مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتے، کم از کم ظلم سہنے والوں میں ہمارا نام آتا، ظلم کرنے والی قوم میں ہمیں کیوں پیدا کردیا، انھوں نے گھر والوں کو وصیت کی تھی کہ میری ارتھی پر بلبیر نہ آنے پائے، میری ارتھی کو یا تو مٹی میں دبانا، یا پانی میں بہادینا، ظالم قوم کے رواج کے مطابق آگ مت لگانا بلکہ ہندوں کے شمشان میں بھی نہ لے جانا، گھر والوں نے ان کی اِچھا خواہش کے مطابق عمل کیا اور آٹھ دن بعد مجھے ان کے انتقال کی خبر ہوئی۔

 

جون میں محمد عمر جما عت سے واپس آیا تو پانی پت میرے پاس آیا اور اپنی پوری کہانی بتائی دو مہینہ سے میرا دل ہر وقت خوف زدہ سا رہتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر نہ آجائے، والد کا دکھ اور بابری مسجد کی شہادت دونوں کی وجہ سے ہر وقت دل سہما سہما سا رہتا تھا، محمد عمر کی کہا نی سن کرمیں اور بھی پریشان سا ہوا، عمر بھائی نے مجھ پر زور دیا کہ سونی پت میں مولانا صاحب آنے والے ہیں، آپ ان سے ضرور ملیں اور اچھا ہے کچھ دن ان کے ساتھ رہیں، میں نے پروگرام بنایا، مجھے پہنچنے میں دیر ہوگئی، عمر بھائی پہلے پہنچ گئے تھے اور مولانا صاحب سے میرے بارے میں پورا حال بتادیا تھا، میں گیا تو مولانا صاحب بڑی محبت سے ملے اور مجھ سے کہا کہ آپ کی تحریک پر اس گناہ کو کرنے والے یوگیندر کے ساتھ مالک یہ معاملہ کر سکتے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آسکتا ہے اور اگر اس دنیا میں وہ مالک سزانہ بھی دے تو مرنے کے بعد ہمیشہ کے جیون میں جو سزا ملے گی آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایک گھنٹہ ساتھ رہنے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر مجھے آسمانی آفت سے بچنا ہے تو مسلمان ہوجانا چاہئے، مولانا صاحب دو روز کے سفر پر جارہے تھے، میں نے دو روزساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو انھوں نے خوشی سے قبول کیا، ایک روز ہریانہ پھر دہلی اور خورجہ کا سفر تھا، دو روز کے بعد پھلت پہنچے دو روز کے بعد میں دل سے اسلام کے لئے آمادہ ہوچکا تھا، میں نے عمر بھائی سے اپنا خیال ظاہر کیا تو انھوں نے خوشی خوشی مولانا صاحب سے بتایا اور الحمد للہ میں نے ظہر کے بعد اسلام قبول کیا مولانا صاحب نے میرا نام محمد عامر رکھا اسلام کے مطالعہ اور نماز وغیرہ یاد کرنے کے لئے مجھے پھلت رہنے کا مشورہ دیا، میں نے اپنی بیوی اور چھوٹے بچوں کی مجبوری کاذکر کیا تو میرے لئے مکان کا نظم کردیا گیا، میں چند ماہ پھلت آکر رہا اور اپنی بیوی پر کام کرتا رہا، تین مہینے کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گئی۔ الحمدللہ میں نے اپنی ماں سے اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا، وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں کہ تیرے پتا کو اس سے شانتی ملے گی، وہ بھی اسی سال مسلمان ہوگئیں۔ آج کل میں ایک جونیرہا ئی اسکول چلارہا ہوں، جس میں اسلامی تعلیم کے ساتھ انگریزی میڈیم میں تعلیم کا نظم ہے۔

 

میں نے عمر بھائی سے مل کر یہ پروگرام بنایا کہ اللہ کے گھر کو شہید کرنے کے بعد اس بڑے گناہ کی تلافی کے لئے ہم ان ویران مسجدوں کو آباد کرنے اور کچھ نئی مسجدیں بنانے کا بیڑا اٹھائیں، ہم دونوں نے طئے کیا کہ کام تقسیم کر لیں، میں تو ویران مسجدوں کو آباد کراں اور عمر بھائی نئی مسجد یں بنانے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کا تعاون کریں، ہم دونوں نے زندگی میں سو سو مسجدیں بنانے اور واگزار کرانے کا پروگرام بنایا ہے، الحمدللہ 13 ویران اور مقبوضہ مسجدیں ہریانہ، پنجاب اور دہلی اور میرٹھ کینٹ میں واگزار کراکے یہ پاپی آباد کراچکاہے عمر بھائی مجھ سے آگے نکل گئے وہ اب تک بیس مسجدیں نئی بنواچکے ہیں اور اکیسویں کی بنیاد رکھی ہے ہم لوگوں نے یہ بھی طے کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر 6 سمبر کو ایک ویران مسجد میں نماز شروع کرانی ہے اور عمر بھائی کو نئی مسجد کی بنیاد ضرور رکھنی ہے، الحمدللہ کوئی سال ناغہ نہیں ہوا، البتہ سو کا نشانہ ابھی بہت دور ہے، اس سال امید ہے تعداد بہت بڑھ جائے گی، آٹھ مسجدوں کی بات چل رہی ہے، امید ہے وہ آئندہ چندماہ میں ضرور آباد ہوجائیں گی، عمر بھائی تو مجھ سے بہت آگے پہلے ہی ہیں اور اصل میں ہمارا کام بھی ان ہی کے حصہ میں ہے، مجھے اندھیرے سے نکالنے کا ذریعہ وہی بنے۔

 

میری ہر مسلمان سے درخواست ہے کہ اپنے مقصد زندگی کو پہچانیں اور اسلام کو انسانیت کی امانت سمجھ کر اس کو پہنچا نے کی فکرکریں، محض اسلام دشمنی کی وجہ سے ان سے بدلہ کا جذبہ نہ رکھیں میں یہ بات بالکل اپنے ذاتی تجربہ سے کہہ رہا ہوں کہ بابری مسجد کی شہادت میں شریک ہر ایک شیوسینک بجرنگ دلی اور ہر ہندو کو اگر یہ معلوم ہوتا کہ اسلام کیا ہے مسلمان کسے کہتے ہیں؟ قرآن کیا ہے اور مسجد کیا چیز ہے تو ان میں سے ہر ایک مسجد بنانے کی تو سوچ سکتا ہے، مسجد گرانے کا تو سوال ہی نہیں ہو سکتا، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بال ٹھاکرے جی، ونئے کٹیار، اوما بھارتی اور اشوک سنگھل جیسے سرکردہ لوگوں کو بھی اگر اسلام کی حقیقت معلوم ہوجائے اور یہ معلوم ہوجا ئے کہ اسلام ہمارا بھی مذہب ہے، ہمارے لئے بھی ضروری ہے، تو ان میں سے ہر ایک اپنے خرچ سے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کو سعادت سمجھے گا، ۔ چلئے کچھ لوگ تو اسے ہیں جو مسلمان کی دشمنی کے لئے مشہور ہیں مگر ایک ارب ہندوں میں ایسے لوگ ایک لاکھ بھی نہیں ہوں گے، ایک لاکھ بھی سچی بات یہ ہے کہ میں شاید زیادہ بتارہا ہوں، ننانوے کروڑ 99 لاکھ تو میرے والد کی طرح ہیں، جو انسانیت دوست بلکہ اسلامی اصولوں کو دل سے پسندکرتے ہیں، میرے والد روتے ہوئے کیا فطرتا مسلمان نہیں تھے مگر مسلمانوں کے دعوت نہ دینے کی وجہ سے وہ کفر پر مرگئے میرے ساتھ اور میرے والد کے ساتھ مسلمانوں کا کتنا بڑا ظلم ہے، یہ بات سچی ہے کہ بابری مسجدکو شہید کرنے والے مجھ سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے ؟ مگر مجھ سے بہت زیادہ ظالم تو وہ مسلمان ہیں، جن کی دعوت سے غفلت کی وجہ سے میرے ایسے پیارے باپ دوزخ میں چلے گئے، مولانا صاحب سچ کہتے ہیں، ہم شہید کرنے والے بھی، نہ جاننے اور مسلمانوں کے نہ پہنچانے کی وجہ سے ہوئے، ہم نے انجانے میں ایسا ظلم کیا اور مسلمان جان بوجھ کر ان کو دوزخ میں جانے کا ذریعہ بن رہے ہیں، مجھے جب اپنے والد کے کفر پر مر نے کا رات میں بھی خیال آتا ہے تو میری نیند اڑ جاتی ہے، ہفتوں ہفتوں نیند نہیں آتی نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں، کاش مسلمانوں کو اس دردکا احساس ہو۔
تحریر : عاصم ایاز