پاکستان میں بھارت کی دخل اندازی

Terrorism

Terrorism

تحریر: نادیہ خان بلوچ
2015 میں بڑے زور و شور سے پیشن گوئیاں جاری تھیں کہ 2016ء پاکستان کیلیے اب تک کا بہترین سال ہو گا. 2016ء میں ملک سے دہشت گردی کا صفایا ہو گا. کچھ لوگوں نے 2016ء کو پاکستان کیلیے امن کا سال بھی کہا. انکا کہنا تھا کہ 2016ء میں سانحہ پشاور جیسا یا اس طرح کی دہشت گردی کا کوئی غیر معمولی حادثہ نہیں ہو گا. پاکستان عالمی ترقی کی جانب بڑھے گا. یہ پیشن گوئیاں سن کر حکومت سمیت بعض لوگ مطمئن ہوگئے کہ ہاں بھائی. فکر کہے کی؟ ایسا کچھ تو اس سال ہونا ہی نہیں. پھر کیوں پریشان ہوکے اپنا وزن کم کریں. مگر یہ کیا ہوا؟ ساری پیشن گوئیاں ہوا ہی ہوگئیں.

سال کے شروع کے ہی دنوں میں 20 جنوری 2016 کو باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوگیا. ایسی تو کوئی پیشن گوئی نہیں تھی. حملہ بھی ایسا کہ جسکے نتیجے میں 22 معصوم جان سے گئے.مگر معززین نے اپنے آپ کو بچانے کیلیے اس حادثے کا سارا نزلہ سیکورٹی انتظامات پہ ڈال دیا. کیونکہ جب 2014ء میں پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا اسکے بعد حکومت نے 20 نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان جاری کر دیا. جسکے ایک نکتہ کے مطابق تعلیمی اداروں کی سیکورٹی بڑھا دی جائے. اور اگر کوئی اس پہ عمل نہ کرے تو وہ تعلیمی ادارہ سیل کردیا جائے.

حکومت اعلان کرکے فارغ ہوگئی. سمجھنے لگی کہ ہم نے عوام کی حفاظت کا فرض پورا کردیا. مگر اس واقعے نے قومی نیشنل ایکشن پلان کی قلعی کھول دی. ظاہر کردیا کہ کہاں تک حکومت نے اس پر عمل درآمد کرایا ہے. اس کے بعد ایک بار پھر حکومت کو چند دونوں کیلیے ہوش آیا آگئے پھر سے تقاریر کرنے. کے قومی نیشنل ایکشن پلان پہ عمل نہیں ہورہا. ایک بار پھر تمام تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کا سرے سے جائزہ لیا جائے.

Educational Institutions Security

Educational Institutions Security

پنجاب سمیت تمام تعلیمی اداروں کی سیکورٹی سخت سے سخت کردی جائے کیونکہ اطلاعات کے مطابق اب کی بار اگلا ہدف پنجاب ہی تھا. کچھ دن اس بات کو اہمیت دی گئی مگر ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح اعلانات تو رہ گئے مگر عمل نہ ہوسکا. مگر اب کی بار ملک دشمن عناصر نے اپنا ٹارگٹ ہی چینج کرلیا. سکول یونی پر حملہ کرنے کے بجائے اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں کی سیکورٹی کی طرف بھولے سے بھی حکومت کا دھیان نہ جائے. یقینا وہ جگہ پارکس ہیں. پاکستان ایسا ملک تو ہے نہیں کہ جسکے حکمران وزارت ملنے کے بعد اسکے لوگوں کی حفاظت کو اپنا اولین فرض سمجھیں. اپنے سے زیادہ عوام کی فکر کریں. جب سکولوں میں سیکورٹی کا نام و نشان نہیں تو پارکس جیسی جگہوں پہ تو سیکورٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. لہذا اب کی بار دشمن نے اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور کی مشہور پارک گلشن اقبال پارک پہ حملہ کیا. پاکستان کی شان پنجاب کے دل کو خون میں نہلا دیا.

کہتے ہیں نہ جس نے لاہور نہیں ویکھا او جمیاں ای نئی. کچھ لوگ جو اپنے پیدا ہونے کا ثبوت دینے آئے ہوئے تھے. لاہور میں آکر امتحانات کے بعد اپنی چھٹیاں گزارنے یا پھر رشتہ داروں سے ملنے. انکا آنا بھی یہاں آخری نصیب ہوا.7 خواتین، 29معصوم بچوں سمیت 72 لوگ شہید ہوئے. اور 300 سے اوپر زخمی ہوئے. جن میں اب بھی کچھ کی حالت خطرے میں ہے. دشمن نے لاہور میں آکر معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی. کئی خاندان اجاڑ کے رکھ دیے. مگر امیر وقت کو دیکھئے اپنے اصلی دشمن کو پہچاننے کی بجائے اس حادثے کا شکار ہوئے مظفرگڑھ کے رہائشی یوسف کو ہی دہشت گرد مان لیا کسی کا دھیان ہی نہ گیا یہ اس عمل کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جو بلوچستان میں انڈین خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ بھوشن یادو کی گرفتاری ہوئی ہے. اب سب کہیں گے بنا ثبوت کیسے انڈیا پہ میں نے انگلی اٹھا دی. تو ماضی کے ہی حالات دیکھ لیجئے. 16 دسمبر 2016 سانحہ پشاور جس میں بھارت کا ہاتھ ہونے کے شواہد بھی ملے مگر پاکستان نے اس کے خلاف عالمی برادری میں آواز نہ اٹھائی. جبکہ بھارت اب تک ممبئی حملوں کے الزام میں پاکستان سے تعلقات بگاڑے بیٹھا ہے.

اس کے بعد جب بھارت میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ ہوا توپاکستان پہ انگلی اٹھائی گئی. اور سرے عام یہ بھی کہا گیا کہ ہم پاکستان میں اس سے کہیں زیادہ سنگین حالات پیدا کریں گے. سب لوگوں نے دیکھا چند دن بعد ہی باچا خان یونیورسٹی پہ حملہ ہوگیا. جس میں افغانستان کے انتہا پسندوں اور بھارت کا ہاتھ تھا. مگر پاکستان نے اسکے بعد بھی وہی چپ اختیار کرلی. اور اسکے ساتھ ساتھ پٹھان کوٹ حملے میں اب تک بھارت کی مدد کررہا ہے.

Suicide Blast in Gulshan-e-Iqbal Park

Suicide Blast in Gulshan-e-Iqbal Park

ابھی کل ہی پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم بھارت گئی ہے اسی سلسلے میں.مگر بھارت نے کوئی ٹھوس شواہد نہ دیے کہ جس سے ثابت ہوسکے واقعی پاکستان اس میں ملوث ہے. اور اب جب بلوچستان میں انڈین خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کی گرفتاری ہوئی تو ایک دم بھارت میں خوف کی لہر دوڑ گئی. اور ادھر پاکستان میں ایک کے بعد ایک را کے ایجنٹوں کی گرفتاریاں شروع ہونے لگیں. تو بھارت نے اگلے ہی دن ہمارے اپنے لوگوں کا استعمال کرکے یہ حملہ کردیا. یہ تو ہونا ہی تھا. اب سب کہہ رہے ہیں کہ اس واقعہ کی اطلاعات پہلے سے ہی تھیں.

جب پہلے سے ہی تھیں تو حکومت نے غفلت کیوں برتی. ارے حکومت کو کیا پڑی وہ اس طرف نظر کرے. انکا بیٹا بیٹی یہاں تھوڑی ہیں. حکومت کا کام تو بس ہر حادثے کے بعد ایک لمبی چوڑی تقریر کردینا ہے. یا پھر حادثے کے بعد ہم مذمت کرتے ہیں کہہ کر لواحقین کیلیے لاکھ دو لاکھ کے امدادی پیکج کا اعلان کردینا جو بھولے سے بھی کبھی ملتا ہی نہیں. اب اس حادثے کے بعد ایک بار پھر وہی ہوا ہے. عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے اسلام آباد کے ڈی چوک پر مذہب کے نام پر ایک لائیو ڈرامہ جاری ہے. انکی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا تاکہ عوام اس گلشن اقبال پارک سانحے کو بھول کر اسلام آباد کے دھرنے کی طرف متوجہ ہوجائے اور بھول جائے کہ بھارت کا بھی ہاتھ ہے اس میں. قائد اعظم نے پاک و ہند کی تقسیم کو جس مقصد کی وجہ سے ضروری سمجھا وہ مقصد تو ہم بھول ہی گئے ہیں.

اب پاکستان بھارت سے دوستی کرنے کے درپے ہے اس وجہ سے بھارت کی جانب سے سبھی کارستانیوں کو فراموش کررہا ہے. اگر دوستی ہی مقصد تھا تو الگ کیوں ہوئے؟ ہم مانتے ہیں قربانیوں سے ہی قوم کا مستقبل بنتا ہے. مگر یہ قربانیاں آخر کب تک؟ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ روز مسیح برادری کا تہوار ایسٹر تھا اور وہ اس پارک میں موجود تھے ان پر حملہ کیا گیا؟ اگر ایسا بھی ہے تو کیا پاکستان میں اقلیتوں کی کوئی حفاظت نہیں؟ اس حادثے میں تو 80% مسلمان ہی شہید ہوئے ہیں. جو ملک اسلام کے نام پر بنا تھا جس وطن سے الگ ہونے کیلیے ہمارے بڑوں نے قربانیاں دیں آج وہی ملک انہی دشمنوں کی سازش سے اسلام کے نام پر مٹ رہا ہے.

(نظم)
میرا شہر لہو لہو ہے،
ہر طرف خون بہا ہے،
نہ جانے ظالموں نے
کس بات کا بدلہ لیا ہے،
ماں نے کہا تھا گندے انکل تو سکولوں میں آتے ہیں،
علم کے دشمن ہیں وہ،
بچوں کو پڑھنے کی وجہ سے مارتے ہیں
مگر آج تو اتوار ہے نہ،
سکول سے چھٹی کا دن
چلو آج پارک چلتے ہیں
بے خوف ہو کے کھیلنا تم،
جھولے بھی جھولنا تم،
ایسا کرتے ہیں سبکو لیکر چلتے ہیں
مگر یہ کیا ہوا؟
کیوں ہنسی مذاق کا میدان چیخوں سے گونج اٹھا؟؟
آج تو سکول بھی نہیں گیا میں،
پھر کیوں ہم پہ حملہ ہوا؟؟؟
کوئی تو بتائے ہمیں،
کوئی تو جینے کا حق دلائے ہمیں،
کہ ہمیں بھی جینا ہے

Nadia Khan Baloch

Nadia Khan Baloch

تحریر: نادیہ خان بلوچ