سیاسی بساط پر لال، ہرا یا نیلا جھنڈا کب تک تھامے رہیں گے

India

India

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
ہمارا ملک ہندوستان نہ صرف آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے بلکہ افکار و نظریات، مذاہب، ثقافت، تمدن، جغرافیہ، وسائل اور مسائل کے لحاظ سے بھی ایک بڑا ملک ہے۔ اس صورت میں ہر آنے والے دن کا آغاز گزشتہ دن کے مقابلہ نئے چیلنجز کے ساتھ ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے آبادی کے لحاظ سے چین دنیا میں سب سے اوپر ہے لیکن چین اور ہندوستان میں فرق یہی ہے کہ چین میں مذہبی و ثقافتی بنیادوں پر بظاہر ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں وہاں ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔

وہیں ہندوستان کی نمایاں خوبی ہے کہ یہاں ہزار پابندیوں کے باوجود شخصی، مذہبی، ثقافتی اور افکار و نظریات کی آزادی موجود ہے۔برخلاف اس کے چین اور ان جیسے دیگر ممالک میں جمہوری نظام کے ظاہری پہلو پس پشت حد درجہ عوامی اور اجتماعی اختیارات طویل مدت سے ختم کیے جا چکے ہیں۔ان ممالک میں انسان مادی ترقی کے مراحل توطے کرتا نظرآرہا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ انسان کے ذہن و قلب اور اس کے افکار نظریات واحساسات تک کواسٹیٹ کا پابند بنادیا گیا ہے۔

ان حالات سے گزرنے والے اکثر ممالک وہ ہیں جہاں آج بھی کمیونزم جڑیں مضبوط ہیں۔مشہور کمیونسٹ ممالک میں چین،نارتھ کوریا،ویت نام، لوس، اور کیوبا ہیں۔گرچہ یہ ممالک خود کو سوشلسٹ اسٹیٹ یا ورکرس اسٹیٹ کہلانا پسند کرتے ہیں اس کے باوجود نظریاتی اعتبار سییہ کمیونسٹ اسٹیٹ ہیں۔ساتھ ہی یہ وہ ممالک بھی ہیں جہاں مخصوص نظریہ کے علاوہ دیگر نظریات کی تبلیغ ممنوعہ ہے اور فکری آزادی کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں ہے۔نیز یہ ممالک نظریہ کے اعتبار سے سنگل پارٹی سسٹم پر قائم ہیں۔

Communist Party

Communist Party

ہندوستان میں بھی کمیونزم کا نظریہ آزادی سے قبل موجود ہے اور دو مخصوص ریاستیں مغربی بنگال اور کیرلہ میں نظریہ کے حامیوں کی حکومتیں بھی طویل عرصہ رہی ہیں ۔عام طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ کمیونسٹ کے معنی دہریہ کے ہیں۔یعنی وہ کسی مذہب کا پیرو کار نہیں یا کائنات کے خلق ہونے اور اس کے خالق پر یقین نہیں رکھتے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ کمیونسٹ دہریہ ہو سکتا ہے لیکن سارے کمیونسٹ دہریے نہیں ہوتے اور ہر دہریہ کمیونسٹ بھی نہیں ہوتا۔دراصل کمیونزم ایک سیاسی نظریہ ہے، مذہب نہیں۔یہی وجہ ہے کہ برصغیر ہندو پاک میں کمیونزم سے متاثر و منہمک مسلمانوں کی “بڑی شخصیات “سرگرم عمل رہی ہیں۔ان میں مولانا حسرت موہانی اوربھاشانی دہریت کا نہیں بلکہ کمیونزم کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔اور آج بھی ہندوپاک میں بے شمار پڑھے لکھے اور سمجھدار کہے جانے والے مسلمان کمیونزم اورکمیونسٹ پارٹیوں کے افکار و نظریات سے ن صرف واوبستہ ہیں بلکہ اس کمیونزم کی بنیاد پر کھڑے ہونے والے نظام میں بھی معاون و ممدو ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ ہر شخص کو پیٹ سے سابقہ ہے۔پیٹ یعنی معاش یا معاشی نظام۔اور کمیونزم کے بانی مارکس نے معاشی نابرابری کو بنیاد بنا کر ہی اپنے نظریہ کی تبلیغ کی تھی۔فریڈرک اینگلز جو مارکس کا دوست تھا اور اقتصادیات کا ماہر،مارکس نے اینگلز کی اقتصادی معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے “سرپلس ویلیو تھیوری”پیش کی۔مارکس کا یہ نظریہ بالآخر اس تصور پر مبنی ہے کہ جدلیاتی مادیت سماجی زندگی کی بنیاد ہے اور یہی آدمی کے شعور کا تعین کرتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مادہ ذہن سے افضل ہے۔ ذہن از خود مادے کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے اور زمان و مکان مادے کی صورتیں ہیں۔”ہمارا رہن سہن اور کام کرنا ہمارے احساسات اور انداز فکر پر اثرانداز ہوتے ہیں”۔دوسری جانب اس نے معاشی اعتبار سے کمزوروں و بے سہارا کو معاشی استحکام بخشنے کی بات کی تھی،جس میں جاذبیت بھی تھی اور کشش بھی۔لہذا نہ صرف نظریہ کو فروغ ملا بلکہ بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں دنیا کی آدھی آبادی اُن حکومتوں کے زیر اثر تھی، جن کی اساس مارکس کے بنیادی نظریات پر رکھی گئی تھی۔

گزشتہ سو برسوں میں مسلسل مارکس کے نظریات کو عروج و زوال کا سامنا رہا ہے۔ مارکس کے نظریات ہی کی بنیاد پر سرد جنگ کا تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ مارکس کے جامع نظریات ہی بحیثیت مجموعی جدلیاتی مادیت اور سائنسی سوشلزم کی تشکیل کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریکوں کے نظریات اور پروگراموں میں شامل ہیں۔ یہی نظریات سوشلسٹ انقلابات اور کمیونسٹ معاشروں کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں نظریات کی بنیاد پر سابق سوویت یونین میں لینن اور ان کے جانشین سٹالن نے تاریخی مادہ پرستی کی شکل میں سوویت عوام کو کمیونسٹ طرز زندگی دیا تھا۔

Society

Society

دوسری جانب مارکس کے انہیں نظریات کو ماؤ نے چین میں، ہو چی منہہ نے ویتنام میں، کم ال سنگ نے شمالی کوریا میں اور فیڈل کاسترو نے کیوبا میں اپنایا تھا۔ ان سب کو یقین تھا کہ مارکس نے ایک عالمگیر حقیقت کو تلاش کر لیا ہے۔ بعد ازاں انہیں رہنماؤں نے مارکس کے نظریات کو اپنے ضروریات کے مطابق استعمال کرنا شروع کر دیا۔لیکن ادب کے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب Albert Camus نے سنہ 1956ء میں کہا تھا، “وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ مل کر کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے”۔یہ ایک زندہ حقیقت جو فرانسیسی ادیب نے جرات اظہار کے ساتھ بیان کی ہے۔

ہندوستان میں نظریہ کے حاملین کے زیر اقتدار ریاست مغربی بنگال طویل عرصہ رہی ہے۔اس کے باوجود اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی غربت و افلاس میں مبتلا ریاستوں میں ایک اہم ریاست یہی مغربی بنگال ہے جہاں مزدوروں اور غریبوں کی جنگ لڑنے والے نہ صرف طو یل مدت اقتدارمیں رہے بلکہ یہی وہ لوگ بھی ہیں جو ہر ناانصافی کے خلاف لال جھنڈا اٹھائے احتجاج میں نمایاں نظر آتے ہیں۔لیکن دوسری جانب ہم اِس تلخ حقیقت سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ طویل عرصہ غریبوں،مزدوروںاوراستحصال شدہ حضرات کی جنگ لڑنے والوں نے نہ اس وقت جبکہ وہ اقتدار میں تھے اور نہ ہی آج،انسانون کو جانوروں کی مانند بوجھ اٹھائے پھرنے کی ذلت آمیز زندگی سے چھٹکارا دلانے کی سعی و جہد کی۔

ملک میں ایک واحد یہی ریاست مغربی بنگال ہے جس کے دارالحکومت کلکتہ میں ایک انسان دوسرے اپنے ہی جیسے انسان کا بوجھ رکشہ پر اٹھائے شب وروز ڈورے پھرتا۔ریاست میں آج بھی پچیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔عالمی جائزے کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں اب بھی تقریباً گیارہ فیصد لوگ رات کو بھوکے سوتے ہیں۔دیبا برت بندھو اپادھیائے کے کہتے ہیں کہ کمیونسٹ جو بتیس سال ریاست میں برسراقتداررہے اگر وہ غریبوں کی حامی ہیں تو پھر انبتیس سالوں میں انہوں نے ریاست اور اہل ریاست کی معاشی زندگی کوبہتر بنانے کی فکر کیوں نہیں کی؟اپادھیائے کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد صنعت میں ریاست تیسرے نمبر پر تھی لیکن اب یہاں صنعت پوری طرح ختم ہو چکی ہے۔ٹریڈ یونینس کے غیر ضروری مطالبات کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند ہو گئیں اور تقریباً چودہ لاکھ لوگ بیروزگار ہوگئے۔

یہ صحیح ہے کہ فی الوقت کمیونسٹ پارٹی حکومت میں نہیں ہے۔لیکن جس طرح ہندوستان کے موجودہ صدر پرنب مکھرجی نے اپنی کتاب میں بابری مسجد انہدام کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ کس طرح وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کو توڑنے سے روکنے میں اپنی ناکامی دکھائی تھی اور بحیثیت وزیر اعظم بابری مسجد انہدام کو نہ روک پانانرسمہا راؤ کی سب سے بڑی ناکامی تھی۔اِس احساس و تذکرے کے بعد کانگریس پارٹی اور اس کے لیڈران ،ملک اور اہل ملک درمیان پیدا ہونے والے حالات کے ذمہ دار ہیں اور وہ بری الزمہ نہیں ہو سکتے۔کیونکہ واقعہ صرف وزیر اعظم نرسمہارائو کی ناکامی کا نہیں تھا بلکہ برسراقتدار پارٹی کے تمام ہی بڑے لیڈران اس غلطی سے کہیں نہ کہیں راست یا بلاواسطہ وابستہ تھے۔

ٹھیک اسی طرح ریاست مغربی بنگال کی افلاس زدہ موجودہ صورتحال سے وہ لوگ بری الزمہ نہیں ہوسکتے جنہوں نے مکمل بتیس سال ریاست میں اقتدار سنبھالا ہے۔پھر یہی وہ ریاست بھی ہے جہاں سرکاری اعدار وشمار کے مطابق 27.01%فیصدمسلمان آباد ہیں۔اور غربت وافلاس میں شاید ستائیس فیصد سے کہیں زیادہ ہر طرح کی پریشانیوں سے نبرد آزماہیں۔ایک بار پھر انتخابات قریب ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مالدہ واقعہ کے پس پشت اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔مسلمان پھر آزمائے جانے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ فکری و نظریاتی اختلاف کے باوجود کب تک سیاسی بساط پروہ لال،ہرا یا نیلا جھنڈا تھامے آزمائش سے گزرتے رہیں گے۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com