کچھ توجہ ادھر بھی!!

Pakistan Poverty

Pakistan Poverty

تحریر : مروا ملک
بھوک اور افلاس ایسی چیز ہے جو انسان کو کبھی خودکشی کرنے پر مجبور کر تی ہے تو کبھی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔غربت اور افلاس سے پناہ مانگتے رہنی چاہیے۔ہمیشہ غربت کی پیٹھ سے جرائم جنم لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی سنگین سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔اسی بھوک سے تنگ آکر کچھ والدین اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کروا دیتے ہیں تا کہ وہاں رہ کر وہ مفت میں و وقت کا کھانا کھا سکیں اور دینی تعلیم بھی حاصل کر لیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان بچوں کی قسمت میں وہی ہاتھ پھیلانا اور مانگنا رہ گیا ہے۔حکومتی کفالت نہ ہونے کی وجہ سے یہ مدرسے اپنے اپنے اصولوں پر کام کر رہے ہیں اور فنڈز نہ ملنے کی صورت زیرِ تعلیم بچوں کو گھر گھر بھیج کر روٹیاں مانگ کر لانے کو کہا جاتا ہے۔ہم اکثر اپنے ارد گرد ہزاروں گداگر دیکھتے ہیں جو کبھی کبھاردیکھنے میں چنگے بھلے لگ رہے ہوتے ہیں ۔سڑکوں پر رواں گاڑیوں کے ہجوم میں لپکتے التجائیں کرتے کہیں سے بھی مجبور نظر نہیں آرہے ہوتے ہیں۔مجبوری ہوتی ہے تو صرف اتنی کہ بھیک مانگنا ان کا مقدر بنا دیا گیا اور ان کی عزت نفس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔سب سے قبیح اور شرمندہ کر دینے والا عمل یقینا کسی کے سامنے دستِ سوال ہونا ہے۔ میں آج جن بچوں کا تذکرہ کرنے جا رہی ہوں ان کو گداگر کہنا یا بھکاری کہنا بہت غلط ہو گا مگر ان سے ایسا کام کروایا جاتا ہے جو ان کی عزتِ نفس کو ختم کرنے کا باعث ہے اور شاید مستقبل میں وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں عار نہ سمجھیں۔اتوار کا دن تھا۔چھٹی کے روز میں پودوں کو پانی دے رہی تھی کہ ڈور بیل بجی ۔میں چونکہ گیٹ کے قریب تھی اس لیے سوچا جا کر دیکھتی ہوں۔

گیٹ کے نچلے خالی حصے سے دو بچوں کے پائوں نظر آ رہے تھے،چپل میں جرانیں پہنے ہوئے۔میں گیٹ کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ہماری گلی کے بچے تو اس گیٹ اپ میں نہیں ہوتے ہیں۔بہرحال میں گیٹ کی طرف بڑھ گئی، دروازہ کھولا تو دو بچے سہمے ہوئے کھڑے تھے۔سر پر ٹوپی اور کندھوں پر سرخ سفید نقطوں والے سکارف لیے ہوئے تھے۔میں نے پوچھا کیا بات ہے۔ کہنے لگے باجی! مدرسے کیلئے روٹی مانگ رہے ہیں۔وظیفہ دے دیں۔میرے لیے یہ الفاظ کافی عجیب تھے۔ہماری کالونی میں مدرسہ ہے عبداللہ بن زبیر جہاں بچے بچیاں دور دراز کے علاقوں سے درس و تدریس کیلئے آتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا مدرسہ عبداللہ بن زبیر سے آئے ہو؟ انھوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔میں نے پوچھا پھر کہاں سے آئے ہو؟کہنے لگے ہم فاروقِ اعظم کالونی سے آئے ہیں، وہاں ہمارا مدرسہ ہے ،استاد جی روز کسی نہ کسی کی باری لگاتے ہیں روٹی مانگ کر لانے کی تو ہم یہاں آگئے۔ میں حیرانگی سے بولی کہ اتنے دور سے یہاں آئے ہو ۔ان کی عمریں مشکل سے چھ اور سات سال کی ہوگی۔ابھوں نے روٹیوں والا ٹوکرا میرے سامنے کر دیا اور بولے باجی وظیفہ دے دو۔خیر میں مزید کچھ پوچھ کر انھیں پریشان کرتی کمرے میں واپس آئی اور کچھ پیسے لے کر گئی اور ان کی طرف بڑھا دیے۔وہ ہچکچانے لگے۔میں نے کہا ابھی تو ہم نے کھانا نہیں بنایا کیونکہ ہم تین ساڑھے تین بجے تک دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں۔

ہماری کالونی کی مارکیٹ میں ایک کارنر پر تندور ہے وہاں ہر وقت روٹیاں پکی ہوئی مل جاتی ہیں۔وہاں سے لے لینا۔انھوں نے ڈرتے ڈرتے پیسے رکھ لیے اور میں دروازہ بند کر کے اندر آگئی۔بچے تو جا چکے تھے مگر میری سوچ ابھی بھی ادھر ہی ٹھہری ہوئی تھی۔میں کتنی دیر ان کے عمل اور ردعمل پر سوچتی رہی۔ان بچوں کا مدرسہ دوسری کالونی میں ہے جبکہ وہ صرف روٹیاں مانگنے کیلئے دوسری کالونی میں اتنے دور تک آئے۔پھر مجھ سے پیسے لیتے وئے وہ ہچکچا رہے تھے۔مجھے افسوس بھی ہو رہا تھا اور میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔میرے دیے پیسوں سے شاید وہ روٹیاں لے کر واپس چلیں جائیں گے اور مزید انھیں کسی کا دروازہ کھٹکٹانا نہیں پڑے گا مگر آخر کب تک۔سوچتے سوچتے میں اسی نتیجے پر پہنچی کہ بلاشبہ ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے۔ان بچوں کے ساتھ مدرسے میں پڑھنے کیلئے آنے والے اسی کالونی کے بچے بھی ہوں گے جو ان کے دوست بھی ہوں گے۔اسی لیے شاید انھوں نے یہ سوچا کہ چلو وہاں سے جا کر مانگ لاتے ہیں جہاں کوئی پہچاننے والا نہ ہو۔میں نے ان کے اندر خوف اور جھجک واضح دیکھی تھی مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسی طرح ان کی باریاں آتی رہیں تو ان کی یہ عادت پختہ ہو جائے گی اور وہ پھر اس میںنہ ی عار محسوس کریں اور نہ ہی اسے برا عمل سمجھیں گے۔

Begging

Begging

یقین مانیں اپنے لیے بھی کسی کے سامنے دستِ سوال ہونے میں اس قدر شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو جب دوسروں کیلئے دردر پر جا کر مانگنا پڑ جائے تو کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہو گا۔مدرسہ سسٹم جہاں فرقہواریت اور شدت پسندی کو فروغ دے رہا ہے وہیں ان معصوموں کو گداگری جیسی ٹریننگ بھی مفت میں دے رہے ہیں۔یہ صرف ایک واقعہ تھا جو میں نے بیان کیا ہے نا جانے کتنے ایسے ہزاروں واقعات روز رونما ہوتے ہوں گے۔والدین اپنے بچوں کو غربت سے تنگ آ کر ان مدارس میں چھوڑ آتے ہیں جن میں ان کے مستقبل روشن ہونے کی تو کوئی دلیل نظر نہیں آتی ہے البتہ زندگی کے گھٹاٹوپ اندھیرے ان کے منتظر ضرور ہیں۔دینی مدارس میں مارپیٹ کا دور دورہ ہے جس میں ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی شخصیت کے بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔میں اس بات کی خود گواہ ہوں کہ میں نے بچوں کو پانی کے پائپ، ڈنڈوں اور گیس کے پائپوں سے مار کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔مدرسوں کے منتظمین کو چرغے اور بکروں دنبوں کی کڑاہیاں کھاتے دیکھا ہے جبکہ مدرسے میں موجود لڑکیاں بھوک کی وجہ سے روٹی کے سوکھے ٹکڑوں پر لڑ جھگڑ رہی ہوتی ہیں۔

میں چونکہ شعبہ تعلیم سے وابسطہ رہی ہوں تو کچھ عرصہ مدرسے کے بچوں کو پڑھانے کا بھی اتفاق ہوا۔ کسی بچے کو اپنے پاس بلا کر دیکھیں وہ کبھی بھی آپ کے پاس خود سے اٹھ کر نہیں آئے گا۔چاہے جتنا ہی پیار سے بلا لو۔اور جب کافی دفعہ بلانے پر بھی نہ آئے تو ان میں سے چند بڑے طالبعلموں کا معمول ہوتا ہے کہ وہ اسے زشبردستی اٹھا کر استاد یا استانی کے پاس لے آتے ہیں۔ان کے ہاتھ میں ڈنڈا دیتے ہیں اور اس بچے کو لٹا کر اس کے دونوں پائوں جوڑ کر استاد کی طرف کر دیے جاتے ہیں۔مجھے اس عمل پر بہت غصہ آیا۔یہ کس قسم کی تشدد پسندانہ سوچ ہے۔ضروری ہے کہ ہر انسان مارا تابع ہو اور ہماری بات مانے۔اور اگرنہ بھی مانے تو کیا اس کا حل صرف مار ہے؟؟ذہنی پستی مدرسوں میں عروج پر ہے۔میں نے بچوں کو زنجیروں سے بندھے ہوئے دیکھا اور اس کی وجہ سے ان کے ٹخنوں اور ٹانگوں پر گہرے زخم بھی دیکھے، جن پر نہ مرہم لگایا جاتا ہے نہ اسے کسی پٹی یا کپڑے سے ڈھانپا جاتا ہے۔زندگی میں صرف آسائشیں تو سب کچھ نہیں ہوتی ہیں۔درد دل اور انسانیت بھی کسی چیز کا نام ہے۔ہم اپنے بچوں پر کیے جانے والے مظالم پر خاموش کیوں ہیں۔

میری حکومت سے اپیل ہے کہ تمام مدرسوں کو کم از کم رجسٹرڈ کریں اور ان کی کفالت کا ذمہ خود لیں۔ایسی منظم تنظیم سازی کریں جس میں ان بچوں کے حقوق سلب نہ و پائیں۔ان کی عزت نفس پامال نہ ہو۔وہ تشدد کا نشانہ نہ بنیں۔بھوک اور افلاس کے ڈر سے اگر غریب والدین اپنے بچوں کو ان دینی مدارس میں چھوڑ جاتے ہیں تو کم از کم زندگی ان پر تنگ نہ کی جائے۔کاش کہ ہم سب مل کر اس دھرتی کی تصویر کو رنگوں اور خوشیوں سے بھر سکیں۔ورنہ تو ہم ایسی مردہ ضمیر قوم بن چکے ہیں کہ نہ ہمیں اپنے اخلاق و عمال کی پستی نظر آتی ہے نہ ہی دوسروں کا دکھ اور درد۔

Marva Malik

Marva Malik

تحریر : مروا ملک