وہ مری کی شام

PTI

PTI

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ اس بار صرف اور صرف پی ٹی آئی سے ہے اس لئے کہ پارٹی داخلی انتشار کا شکار ہے اور آپس میں ہی لڑ لڑ کر ختم ہو جائے گی۔ یہ تو ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کرتے اس قسم کی باتیں سنائی دیتی ہیں میں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ ٢٠١٣میں چودھری نثار پی پی ٦ سے گائے کا نشان کیوں لے کر لڑے اور دو ہفتے پہلے بلدیاتی الیکشن میں شیر کدھر تھا بالٹی اور ہیرہ لڑ پڑے تھے اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف اس دور سے گزر رہی ہے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے رکھنا اور اس اکا اظہار کرنا جائز ہے یہ یس مینوں کی پارٹی نہیں ہے ۔مجھے ٢٠١٣ بھی اچھی طرح یاد ہے اس وقت پارٹی انٹرا پارٹی انتحابات میں جا رہی تھی ایک طرف داخلی انتحابات کا شور تھا دوسری جانب ٹکٹیں بٹ رہی تھیں جنوں والے بھی تھے اور وہ لوگ بھی جنوں کو سر عام بولی لگا کر بیچ بھی رہے تھے وہ وقت بھی کیا وقت تھا کہ جیتی ہوئی سیٹیں بیچ دی گئیں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں قائد کنٹینر سے گرے اور انہی دنوں انہیں علم ہو گیا کہ سودا بیچ دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہو گیا سو ہو گیا ووٹ بیٹ کو دیں۔کمال کا موسم تھا خود ہی تنظیمیں بنائو خود ہی عہدے بانٹو اور خود ہی ٹکٹیں لے کر گھر چلے جائو۔حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ نہ سدھریں ہیں نہ سدھرنے کا ارادہ ہے۔کیا اس بار بھی یہی کچھ ہو گا اس سوال کا جواب تلاشنے میں آپ کو مری لے جانا چاہوں گا جہاں نوجوانوں نے ایک بھرپور کنونشن منعقد کیا ناصر عباسی جو میرے دوست ساجد عباسی دمام میں رہتے ہیں کے بھائی ہیں۔

انہوں نے مقامی ہوٹل میں ایک خوبصورت محفل سجائی جس میں عطاء اللہ شادی خیل ہارون کمال ہاشمی اپنی ٹیم کے ساتھ شریک ہوئے۔سب کا نام لینا مناسب نہیں اس لئے کہ قرطاس اجازت نہیں دیتا۔مجھے بھی ایک مہمان مقرر کی حیثیت سے بلایا گیا۔میں نے محسوس کیا کہ جوانوں کے ساتھ بوڑھے اور ادھیڑ عمر بھی شریک محفل تھے ۔سردار سلیم پاکستان تحریک انصاف مری کے اہم لیڈر ہیں انہوں نے بھی پیار سے بلایا اس سے پہلے مجھ تک پیغام پہنچایا گیا کہ آپ نہ آئیں لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جوان بلائیں جو ہمارا مستقبل ہے اور ہم نہ جائیں۔میری گزارش یہی تھی کہ تحریک پاکستان کے جذبوں کو مد نظر رکھیں اور برادری ازم سے چھٹکارہ پائیں۔نوجوانوں کا جذبہ قابل دیدنی تھا اس وقت تو قہقہے لگے جب میں نے کہا کہ پاکستانی جوان اور بچے بڑے اچھے ہوتے ہیں لیکن ان میں خرابی یہ ہے کہ یہ بڑے ہو جاتے ہیں یہ بات کرنل شفیق نے کہی تھی لیکن اس میں سچ ہے کہ جب میاں نواز شریف چھوٹے تھے اور سنٹرل ماڈل اسکول اور گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے انہوں نے لب پے آتی ہے دعا کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری اور جناب آصف علی زرداری نے بھی گنگنایا ہو گا ہو میرا کام غریبوں کی حمائت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا۔میاں صاحب نے کہاں سوچا ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی چوری اور سب سے بڑے ڈاکے کی سرپرستی فرمائیں گے اور اس کے لئے پاکستان کی پارلیمان میں آ کر پائوں جوڑ کر جھوٹ بولیں گے۔

اللہ کا شکر ہے کہ پی ٹی آئی نے پانامہ اسکینڈل بنی گالہ سے نہیں جاری کیا یہ دنیا کہ معتبر صحافیوں کی ایجاد ہے جو دنیا کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔جناب زرداری کی جیب تراشیاں تاریخ کا حصہ ہیں بمبینو سینمے کی ٹکٹوں کی بلیک سے لے کر لوگوں کی ٹانگوں سے بم باندھنے تک کے کارنامے زبان زد عام ہیں مسٹر ٹن پرسنٹ کا خطاب بھی انہیں باہر کی دنیا سے ملا۔میری جوانوں سے یہی درخواست تھی کہ رزق حلال سے تعلق مضبوط رکھیں۔اس تقریب کا مقصد ان نوجوانوں کو اسناد کی تقسیم تھی جنہوں نے زمہ داریاں سنبھالی ہیں۔تنظیمی طور ہر اتحاد کا درس جناب ہارون کمال ہاشمی نے دیا اور کہا کہ متحد ہوئے بغیر ہم آگے نہیں بڑ سکتے جناب سردار سلیم کا کہنا تھا کہ پارٹی اس فرد کو سامنے لائے جو نون کے سینے میں کھبتا ہو ان کی تقریر کے دوران نعرے بازی ہوتی رہی منظر نامہ بتا رہا تھا کہ مری کے لوگ انہیں چاہتے ہیں۔یہ فیصلہ تو پارٹی نے کرنا ہے کہ کون کیا ہے اور کہاں کھڑا ہے اور کون کس کے سینے میں کھبتا ہے لیکن ان کی بات بہت سے دلوں میں اتر رہی تھی۔فیاض الحسن چوہان نے بھی تحریک پاکستان کے حوالے سے گفتگو کی دو چار اچھے سے لطیفے سنائے اور اپنی طرف سے وضاحت کی کہ میں کسی خاص برادری کے خلاف نہیں ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میرے خلاف پروپگینڈہ کیا گیا۔یہ انتہائی خوبصورت بات تھی اور یہ موقع بھی تھا کہ مری کی اکثریتی برادری کے درمیان کلیرنس پیش کر رہے تھے جس کا جواب بھرپور تالیوں کی شکل میں ملا۔نوید افتخار ضلع راولپنڈی انصاف یوتھ ونگ کے صدر تھے اس نوجوان نے تھوڑے عرصے میں یوتھ ونگ کو یو سی لیول پر منظم کر دیا ہے آئے روز پارٹی کی تنظیمی محفلوں میں شرکت کر کے اس نے بتا دیا ہے کہ کام ہی کسی کی شناخت ہے۔عطاء اللہ شادی خیل کا خطاب جان محفل تھا انہوں نے بھی یہی کہا کہ جب تک ہم متحد نہیں ہوں گے کسی طور ممکن نہیں کہ ہم عمران خان کو کامیابی دلا سکیں عطاء اللہ شادی خیل نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو شخص ہیں انہوں نے عامر محمود کیا نی کو خراج تحسین پیش کیا کہ وہ پارٹی کے لئے گراں قدر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ سچ پوچھیں عطا اللہ شادی خیل جو گرچہ نئے ہیں لیکن ان کی گفتگو بتا رہی تھی کہ وہ نظرئے کے ساتھ ہیں کسی نے خوب کہا تھا کہ پی ٹی آئی نئے پرانے کے چکر میں گاڑی مس کر دیتی ہے ان کی آمد سے وہ لوگ پر امید ہیں جو برسوں سے انصافی فلسفے کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور ناہیں ہر مقام پر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔کنونش کے ہال میں حبس تھی شائد یہ جوش و جذبے کی نشانی تھی سہیل عرفان عباسی اور ناصر عباسی کی باتیں بھی دلوں کو بھلی لگیں ایک خوبصورت آواز جاوید اقبال ستی کی تھی جنہوں نے سر عام کہا کہ کوشش کروں گا کہ ٹکٹ ملی تو جان لڑا دوں گا اور نہ ملی تو جسے ملی اس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلوں گا۔

یہی جذبے اور یہی جوش چاہئے۔ چائے کی میز پر قربانیوں کا تذکرہ ہوا تو میں نے از راہ تفنن کہہ دیا کہ جو ایک بار قربان ہو اسے دوسری بار قربانی کے لئے پیش کیا جا سکتا۔تقریب سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا جو ضلع کے مکتلف علاقوں سے مری تشریف لائے تھے۔اگلے روز کے اخبارات میں خبریں بھی چھپیں جن میں وہ لوگ غائب تھے جو اس خوبصورت محفل کی رونق تھے اور جن کی یہ محفل تھی یہی وہ ڈنڈی ہے جو ریلیوں اور جلسوں میں ماری جاتی ہے ایک گاڑی آگے لگا کر شور مچا دیا جاتا ہے کہ موصوف ایک بڑے جلوس کی قیادت میں آ رہے ہیں۔

یہ کاغذی شیر زمین پر سر کسی شیر ہوتے ہیں اپنی وارڈیں تک ہار جاتے ہیں اور بھڑکیں ایسی کہ الحفیظ و الاماں مری میں جاوید اقبال ستی کی آواز پارٹی فیس نظر آئی مجھے پورا یقین ہے کہ سردار سلیم جو فخر مری ہیں وہ بھی اسی دھارے میں آئیں۔پی ٹی آئی ان نظریاتیوں کو بھی جانتی ہے جو خود ہی تنظیمیں بناتے رہے خود ہی عہدے بانٹتے رہے اور خود ہی ٹکٹیں اٹھا کر چلے گئے۔٢٠١٨ پارٹی کے لئے ایک امتحان ہیں اگر امیدواروں کے چنائو میں ذاتی پسند و ناپسند کو مد نظر رکھا گیا تو بیٹ کی انھے واہ حمائت کی ہنڈیا دوبارہ نہیں چڑھ سکے گی۔باقی رہی بات اندرونی اختلافات کی تو اس کے لئے پارٹی کا نظم و ضبط انتہائی ضروری ہے پارٹی کے اندر کے غنڈہ عناصر اور وہ لوگ جنہوں نے تنظیم کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا تو یہ لڑائی ون وے نہیں رہے گی۔ہم نے میانوالی اور فیصل آباد میں جو کچھ کیا وہ قابل فخر نہیں ہے۔تقریب میں ملک محن ،ساجد قریشی بھی شامل تھے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری