ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

Quran

Quran

تحریر: شاہ بانو میر

طفل سے بو کیا آئے گی ماں باپ کی
دودھ ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی

رویوں کی اصلاح کیلیۓ اگلے دن ایک سیمینار ہوا جس میں بیرونِ ملک سے آئی ہوئی انگلش خاتون فرما رہی تھیں کہ ہم یہاں آئے ہیں تا کہ بچوں کو ابھی سے دنیا کے ساتھ رہنے اور اخلاقیات سے آگاہ کر کے متوازن شخصیت بنایا جائے میں سر پیٹ کر رہ گئی۔

جی چاہا اس ٹی وی سکرین کو توڑ دوں ظالمو قرآن پاک کے امین ہو جو ادب آداب کے وہ گُر سکھاتا ہے کہ دنیا آج بھی اس کی اخلاقیات کے سبق کو اعلیٰ جانتی ہے اس کتاب کو نظر انداز کر کے انگریزی کے آداب سکھاؤ گے؟

تُف ہے اس سوچ ہر اور اس عمل پر وہ اسلام جو بیچارے لاچار غرباء کا اسلام تھا جس نے ایسا حق کا پیغام دیا کہ وہ غریب وہ نادار جو کبھی مکھی نہیں مار سکتے تھے۔

Poetry

Poetry

انہیں اس اسلام کے اسباق نے شیر دل جنگجو بنا دیا غزوے لڑے جنگیں کیں ایسے دین کے پروردہ آج غیروں سے زندگی کے آداب سیکھ رہے ہیں۔

میں اُس روز سے گم سم ہوں کہ یا اللہ جس دین نے بدوؤں کو تہذیب سکھا دی جس نے بیاباں میں ماں بیٹے کو صرف تیرے یقین پے رکنا سکھا دیا کہ ان کی وساطت سے صدیوں کا سفر طے ہونا ہے اور دنیا کو عالمی طرزِ حیات ملنا ہے۔

والدین کے حقوق بہن بھائی کے حقوق عزیز رشتے داروں کے حقوق کے حقوق اولاد کے بیویوں کے غلاموں کے جانوروں کے دشمنوں کے حیوانات سے لے کر پودوں درختوں کا خیال رکھنے والا دین آج اہل پاکستان فراموش کر کے بدیسی آداب کی کتابیں بچوں میں بانٹ رہے کہ وہ پاکستان میں کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔

اس سے بڑی بد نصیبی کسی زندہ قوم کیلیۓ ہو نہیں سکتی اپنی زبان اپنے دین اپنی ثقافت کا گلا اپنے ہاتھوں گھونٹ کر بدیسی کتاب تھمائی جا رہی جس میں آدابِ زندگی مقید ہیں۔

گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ اللہ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر: شاہ بانو میر