دعا

یا رب دعا ہے دولتِ افکار بخش دے
مجھ کو میرے ضمیر کا دیدار بخش دے

میرے خیال و خواب پر تو حکمرانی کر
میرے لبوں کو جراتِ اظہار بخش دے

جھلسا رہی ہے جسم جلے موسموں کی دھوپ
بادل نہیں تو سایہء دیوار بخش دے

ہو پائیں کامیاب نہ موجوں کی سازشیں
کشتی کو میری ایسے تو پتوار بخش دے

پتھر وجود میں کوئی تحریک پیدا کر
سوزِ حیات اور دلِ بیدار بخش دے

شرمندگیء قوتِ باطل کے واسطے
میرے قلم کو قوتِ تلوار بخش دے

جس سے فروغ پا سکیں ارمانِ بندگی
ساحل کو وہی عِجز کی دستار بخش دے

DUA

DUA

تحریر: ساحل منیر