حق و باطل کی جنگ میں کامیابی کا راز

Right and Rrong

Right and Rrong

تحریر : قاسم ندیم، جہلم
جس دن اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمیں پر اتارا اسی دن اللہ نے ابلیس کو بھی اس دنیا میں بھیج دیا۔ مطلب حق اور باطل ایک ساتھ اس دنیا میں آئے ہیں اور اسی دن سے حق اور باطل کی آپس میں لڑائی جاری ہے۔ شیطانی طاقتیں انسان کو اپنی طرف بلانے میں برسرپیکار ہیں اور اللہ کے نمائندے اپنی طرف۔ یہ دنیا اللہ کی بچھائی ہوئی ہمارے لیے امتحان کے جگہ ہے اور ہوتا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے مگر وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون حق کے ساتھ ہے اور کون باطل کے ساتھ۔ ویسے تو حق اور باطل کی جنگ ہر جگہ ہے مگر جو جنگ ہم مسلمانوں کی آنکھ کھولنے کے لیے اللہ کی طرف سے لگائی گئی ہے وہ آج شام میں رونما ہو چکی ہے اور یہ وہ ہی شام ہے جس کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ” اے مومنو ! فتنوں کے دور میں شام کو لازم پکڑے رکھنا“۔ کیا یہ ارشاد اسی وقت کے لیے تو نہیں فرمایا گیا تھا ؟ کیا ہمیں اس بات کی فکر ہے یا نہیں ؟ یقینا نہیں ہے کیونکہ آج ہمارا معاشرہ جس بے خبری کے عالم میں جی رہا ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی آسائشوں کو اکٹھا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔

سوشل میڈیا پے گردش کرتی شامی بچے کی ایک تصویر نظر سے گزری۔ کس طرح اس معصوم فرشتے کا چہرہ لہولہان تھا اور کس طرح بالکل خاموش بیٹھا تھا۔ نہ ہنس رہا تھا اور نہ رو رہا تھا کسی عجیب سی کیفیت میں تھا۔ پاکستان کے نیوز چینلز میں بھی کافی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں اس تصویر کے بارے میں اور یہ ایک جملہ سر فہرست رہا ہے کہ ایک شامی بچے کی تصویر نے عالمی ایوانوں تک ہلچل مچا دی ہے بس اس سے زیادہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ ناجانے کتنے بچے رات کو ماں کی گود میں سوتے ہیں اور منوں مٹی تلے صبح ان کی آنکھ کھلتی ہے۔

Syrian Child

Syrian Child

شام تو دور کی بات وہ ملک پھر ہم سے تھوڑا دور پڑ جاتا ہے یہ جو ہماری بغل میں کشمیر میں جو بھارت نہتے مسلمانوں پے ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہمیں کی بھی خبر نہیں ہے اگر ہے بھی تو چپ کیے آرام سے بیٹھیں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری کا معیار یہ ہے کہ جو پاکستان کا کوئی چینل ہمیں خبر دے دے بس اسی کو سن کے فارغ وقت میں اس پے تبصرہ کر دینا۔ ایک المیہ ہماری قوم کا یہ بھی ہے کہ جو کر سکتے ہیں بس حکمران کر سکتے ہیں جبکہ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران آپس میں ہی اتنے اختلافات پیدا کر چکے ہیں کہ انہیں فرصت ہی نہیں کہ وہ کچھ اور سوچ سکیں در حقیقت سب کرسی کی خاطر بڑے بڑے بول بولے جاتے ہیں اور وقت آنے کوئی نظر نہیں آتا۔ بات پھر وہیں پے آ کے اٹک جاتی ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔ اگر ہم واقعی اپنے ملک اور اپنے مسلمان ممالک بھائیوں کی فکر کرتے ہیں تو پہلے خود کو ہم نے مستحکم کرنا ہو گا اور یہ فعل کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر سے خرابی کو تلاش کر کے اسے دور کرنا ہو گا ہمیں حق اور باطل کی پہچان کی کرنی ہو گی اور اس پے عمل درآمد کرنا ہوگی۔

مجھے آج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آتا ہے کہ ”سب سے بدبخت حکمران وہ ہے جس کے بگڑ جانے سے اس کی رعایا بگڑ جائے اور سب سے بد بخت وہ قوم ہے جو جس کے ظالم ہونے سے اس پے ظالم حکمران مسلط کر دیے جائیں“ اور یہ سارا منظر آپ کو پاکستان میں دیکھنے کو بخوبی ملے گا۔ ہم اسلام اور اسلام کے اصولوں سے غافل ہو چکے ہیں اور مغربی کلچر کو اپنائے ہوئے ہیں اسی لیے ہم باطل سے مذاکرات کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جب کہ حق اور باطل کبھی ایک نہیں ہو سکتے اور یہی بات ہمیں ہمارا مذہب سکھاتا ہے۔

جب احد کی لڑائی میں شکست ہوئی تو نبی پاک صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا یہ جنگ ہمارے درمیان ہمیشہ چلتی رہے گی کچھ وہ جیتیں گے اور کچھ ہم جیتیں گے مگر ہم اپنی دنیاوی کامیابی کے بارے میں ہی سوچے جا رہے ہیں حالانکہ ہماری کامیابی اور ناکامی کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے جو اس وقت ہمیں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بتایا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے سمجھنے کا معیار وہی بن چکا ہے جو ہمیں مغرب دینا چاہتا تھا اور آگے ہماری بد قسمتی بھی یہ ہے کہ جو ہمیں رہبر ملے جو پہلے ہی خود کو مغربی رنگوں میں ڈھال چکے ہیں۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

آج ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک میں شان سے رہ رہے ہیں مگر ایسا ہونے کے باوجود بھی ایسا نہیں ہے۔ ہماری عزتیں محفوظ نہیں ہمارے بچوں کو تحفظ میسر نہیں ہے۔ ماں باپ اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں آسمانی آفتیں بھی ہمیں سر اٹھانے کی فرصت نہیں دیتی۔ سیلاب زلزلے طوفان یہ سب کیا ہے؟ کہیں یہ ایسا تو نہیں کہ ہم طاقتور ہونے کے باوجود بھی اپنے پاک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی ماندہ امت کو بھول بیٹھے ہیں اور اس کے بدلے میں اللہ ہم سے ناراض ہے اور ہمیں ہمارے ہی رحم و کرم پے چھوڑ دیا ہے۔ غور کرنے کے معاملے ہمارے پاس بہت ہیں اگر ہم فکر کرنا چاہیں تو۔۔

تحریر : قاسم ندیم، جہلم