سودی نظام کا خاتمہ کیوں اور کیسے

Interest

Interest

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پاکستان کے اندر دو مرتبہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہیں کہ سودی نظام کی لعنت سے جان چھڑائی جائے مگر اب پھر مختلف مفاداتی درخواستوں کی بنا پر وفاقی شرعی عدالت میں سود ی نظام کے خاتمے کے حوالہ سے کیس کی سماعت جاری ہے جہاں پر جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی اس کی پیروی کر رہی ہیں یہاں پر انہی قواعد و ضوابط پر بحث و مباحثہ کا پنڈال سجا ہے جن کے بارے میں پہلے ہی فیصلے دیے جا چکے ہیں در اصل میں نہ مانوں کی طرح ہماری ہر حکومت سامراجی ممالک کی شہہ پر سودی نظام کے خاتمے پر لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے۔

بار بار عدالتوں میں سود پر بحث ومباحثہ سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ مسئلہ عدالتوں کا نہ ہے بلکہ اصل رکاوٹ سرمایہ دارانہ معیشتی نظام کے علمبرداروں اورحکومتی کارپردازوں کی طرف سے ہے اور یہ کہ یہ سب لوگ واضح کافرانہ نظام سود کو عدالتوں کے درمیان ہی الجھائے رکھنا چاہتے ہیں ویسے حکومت پاکستان کو 1973سے ہی دستور پاکستان نے پابند کر رکھا ہے کہ وہ جلد از جلد دنیا کے غلیظ ترین سودی نظام سے نجات دلوائے مگر متعلقہ ادارے گذشتہ43سال سے اعلیٰ عدالتوں میں گھما پھرا کر اس مسئلہ کو لٹکائے پھر رہے ہیں دینی جماعتیں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہیں ہیں اور اس مسئلہ کو وہی اپنے سروں پر اٹھائی پھر رہی ہیں سبھی دینی جماعتوں کی مل کر بھی اسمبلیوں میں طاقت اتنی نہیں کہ اس پر کوئی پارلیمانی قرارداد پاس کرواسکیںتاکہ کئی بار منظور شدہ اس سلسلہ کے قوانین و ضوابط ہی نافذ ہو سکیں۔چونکہ حکومت دستوری ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی تو تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور دینی قوتوں کو پوری طاقت سے اس پر ذور دینا چاہیے تمام مسالک دینیہ اور مروجہ فرقے سودی نظام کے مکمل خاتمے کے لیے قرار دادیں پاس کر چکے ہیں۔

اس کفریہ نظام کو ختم کرنے کے لیے رائے عامہ پہلے سے ہی بیدار ہے صرف اسے منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔1974میں تحفظ ناموس رسالت کے نام پر تمام مسلمان اکٹھے ہو گئے تھے اور آج بھی ہیں اس لیے سودی نظام کا خاتمہ کیا جانا عین ممکن ہے جب تک یہ نظام اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں جاری و ساری رہے گا خدا کی رحمتوں کا نزول قطعاً نہیں ہو سکتا۔اور اتحاد امت تو قائم ہوہی نہیں سکتا ۔چونکہ سرمایہ داروں کی آپس میں سر پٹھول اس سودی نظام کی موجودگی میں جاری رہے گی۔

سود خدا اور اس کے رسول کے خلاف وا ضح جنگ کا نام ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شیطان نے آپ کے جسم کو چھو دیا ہو اور آپ کو باولا کر ڈالا ہو۔اصل میں دیر اب صرف حکمرانوں کے خلوص نیت کی ہے وگرنہ ا سلامی نظریاتی کونسل سودی قوانین کا تعین اور وضاحتیں کرکے اس کا متبادل نظام تجویز کرچکی ہے پاکستان میں ابتدائی طور پر اور دنیا بھر میں غیر سودی مالیاتی نظام کا کا میاب تجربہ جاری و ساری ہے ۔اسلئے اب حکمرانوں کو ملک میں سودی نظام کو جاری رکھنے کو کوئی اخلاقی و قانونی جواز بھی نہ ہے عالم اسلام کے مفکر سید مودودی کی معرکتہ الاراکتب سود ،اسلام کا معاشی نظام ،اسلامی ریاست اور مولانا صدر دین اصلاحی کی کتاب غیر سودی بنک کاری سے صحیح راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے حکومت کی اولین ترجیح و ذمہ داری ہے کہ وہ سودی نظام کے خاتمے کے لیے اپنی دستوری ذمہ داریاں پوری کرے اور اس کے لیے عملی اقدامات کرے میاں نواز شریف کواپنے پچھلے دور حکومت میں لیے گئے سود کے خلاف سٹے آرڈر کو واپس لے لینا چاہیے تاکہ ملک پر خدا کی رحمتوں کی برساتیں ہوں مگر نہ جانے کس مصلحت کی بنیاد پر عوام کے خون چوسنے کے دھندے سودی بینکنگ نظام کوبند کرنے سے خوف کھاتے ہیں۔1990-91میں سپریم کورٹ میں بحث کے دوران سود کے خاتمے کے لیے حکومت نے سات سال مانگے تھے مگراب26سال گزرنے کے بعد بھی سودی نظام کے سانپ کو گلے کے ارد گرد لپیٹ رکھا ہے جس سے غریب عوام کی روز بروز بڑھتی مہنگائی نے چیخیں نکلوا رکھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے اس وقت بھی 1476ارب ڈالرز اسلامی بینکنگ کے کھاتے میں جمع ہیں13فیصد اسلامی بینکنگ کامیابی سے چل رہی ہے تو باقی سرکاری بنکوں میں اسے نافذ کرنے میں کیا قباحت ہے ۔سودی نظام سے سرمایہ چند ہاتھوں میں جمع ہوتا رہتا ہے اور امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو تے چلے جاتے ہیںاس سامراجی یہودی نظام کے موجدین میں ہی سارا سرمایہ گھوم رہا ہے دنیا کے آٹھ امیر ترین لوگوں میں سے چھہ امریکن ہیں سودی نظام کی ہی وجہ سے یہودی معیشت ہی ترقی پذیر اور اسلامی ممالک کی معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ہم صرف قرضوں پر ہی گزارا کرنے کے لیے مجبور محض ہیں ۔اس نظام کے تحت سرمایہ دار طبقات غریبوں کا گوشت تک نوچ کر ڈالروں سے تجوریاں بھر لیتے ہیں دولت کی مالک سات کمپنیاں جنہیں سیون سسٹرز بھی کہتے ہیںحتیٰ کہ تیل کے کنویں خواہ سعودی عرب میں ہوں یا ایران میں پاکستان میں یا روس میں ان کی مالک یہی یہودی کمپنیاں ہیں۔

سعودی عرب جیسے ملک کا بھی خسارہ ایک سو ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکا ہے جو آئندہ سال ایک سو پچیس ارب ڈالر زتک پہنچ جائے گا۔اس نظام کے تحت چلنے والے ممالک کی معیشت زمین بوس ہوجاتی ہے اور ملک قرضوں جیسی لعنت میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ اس کی کبھی بھی خلاصی نہیں ہو سکتی۔در اصل سودی نظام عالمگیر شیطانی دجالی حکومت کی تیاریوں کاذریعہ ہے۔اسرائیل خود یہودیوں کے ذریعے دنیا بھر کی معیشت پر قابض ہو چکا ہے اور سود کے اس دجالی جال میں ایران، ترکی، مصر ،پاکستان اور تقریباً سبھی عرب ممالک بری طرح پھنس چکے ہیں خدا اور اس کے رسول کے ناپسندیدہ ترین نظام سود کو جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی نظام معیشت کو رائج کرنے سے ہی مسلمان سکھ کا سانس لے سکیں گے اور ہماری مہنگائی بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

Mian Ehsan Bari

Mian Ehsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری