بلا عنوان

Mother and Child

Mother and Child

تحریر : شاہ بانو میر
زہرہ بی بی نے ساری جوانی بیوگی میں کاٹ دی 5 بیٹوں کی ماں شہید سپاہی کی بیوہ تھی ـ 3 بیٹے گاؤں میں موجود آبائی زمین کی آبیاری سے گھر کو چلا رہے تھے 2 بیٹے تعلیم حاصل کرنے شہر جا چکے تھے اور وہیں ذریعہ معاش کی تلاش میں تھے ـ زندگی لگی بندہی رواں دواں تھی ـ مگر ایک صبح زہرہ بی بی نیند سے بیدار نہیں ہوئی بلکہ ہڑبڑا کر اٹھی اور ہراساں سی صحن میں پھرنے لگی ـ زہرہ بی بی بار بار دو ہتڑ سینے پر مارتی اور کہتی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کی بہو نے دوپہر کھانے کھاتے ہوئے شوہر کو دبی آواز میں بتایا اور اصرار کیا کہ وہ جائے اور ماں سے استفسار کرے ـ صابر زہرہ بی بی اس سے پہلے کبھی اس قدر پریشان دکھائی نہیں دی تھی وہ تو ہر حال میں راضی برضا رہنے والی عورت تھی ـ

معاملہ کی سنگینی بھانپتے ہوئے بیٹے نے ماں کے کمرے کا رخ کیا اور اجازت طلب کر کے نیم تاریک کمرے میں ماں کے قدموں کی جانب مؤدب کو کر بیٹھ گیا اور دوپہر کھانا نہ کھانےا ور ناشتہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی ماں شائد بوجھ اٹھا کر تھک چکی تھی بیٹے کی ہمدردانہ آواز نے جیسے سینے میں جھکڑ چلا دیے زارو قطار روتے ہوئے اس نے بتایا کہ آج نمازِ تہجد کے بعد وہ پڑہائی کرتے ہوئے نجانے کب آنکھ لگنے سے سو گئی خواب میں دیکھتی ہے کہ اس کا چوتھے نمبر کا بیٹا اس سے جھگڑا کر رہا ہے اور (ماں) کو انتہائی غلیظ گالی دیتا ہے

Mother

Mother

میں اس خواب کو جھٹلانے پر تیار نہیں روتے ہوئے اس نے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے کہا تم جاؤ شہر اور اسے مل کر آؤ پوچھو اس سے کیا کیا ہے اس نے ایسا؟ خواب کی عجیب و غریب کیفیت نے جیسے بیٹے کو بھی بد حواس سا کر دیا ایسی پیاری ماں اور ایسا خواب ؟ میں کل صبح ہی جاتا ہوں قصہ مختصر دوسرے روز وہ منہ اندھیرے شہر روانہ ہوا اور دوپہر کے قریب وہ بھائی کے پاس پہنچا بغیر کسی لگی لپٹی کے اس نے بھائی کو بلا کم و کاست سارا ماجرہ کہہ سنایا بھائی کے چہرے پے یک بیک جیسے پسینہ آگیا شرمندگی سے رنگ فق سا ہو گیا

پھر اس نے بتایا کہ ایک روز پیشتر اس کی پروفیسر جو ایک ادھیڑ عمر خاتون تھیں قدرے سخت مزاج تھیں اس کے ساتھ اس کی تلخ کلامی ہو گئی شیطان نے ایسا حملہ کیا کہ وہ اپنی تربیت اور روایات کو فراموش کر گیا اور کلاس کے بعد راستہ میں جاتے ہوئے اس نے بیچ سڑک اس ادھیڑ عمر استاد کو بے نقط سنائیں وہ سخت مزاج تھیں لیکن تھیں تو خاتون وہ زارو قطار روتی ہوئی شرمندگی سے وہاں سے چلی گئی ـ وہ خود کو حق پر سمجھ رہا تھا اور اس کے ضمیر نے اسے کوئی ملامت نہیں کی تھی کیونکہ اس کے ساتھ اس کے کچھ سر پھرے دوست تھے جو اس کو تاؤ دلا رہے تھے کہ اس عورت کا دماغ ٹھیک کرنے کی بہت ضرورت تھی ـ

Professor

Professor

تم نے ٹھیک کیا ـ ماں کی تربیت پر پانی پھیر دیا تم نے ؟ تمہاری تربیت کو ناعاقبت اندیش دوستوں نے تباہ کر دیا ـ اس خاتون کے گھر چلو اور معافی مانگو ورنہ ماں کو یہ خواب قبر تک لے جائے گا ـ سر شرمندگی سے جھکائے وہ بھائی کے ہمراہ اپنی پروفیسر کے گھر گیا تو دروازے کے سامنے لوگوں کا اژدھام تھا چیخ و پکار کی آوازیں ایسی بلند تھیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ـ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس پروفیسر کو اچانک دل کا دورہ پڑا اوروہ خالقِ حقیقی سے جا ملی ـ

4 جوان بیٹیاں بیوگی کے بعد پالنے والی یہ عورت آج خوبصورت الفاظ سکھانے والی بد صورت غلیظ الفاظ برداشت نہ کر سکی اور دنیا چھوڑ گئی ـ خواب کی تعبیر سامنے آگئی معافی مل جاتی تو شائد ازالہ ہوجاتا ـ سوالیہ نشان ہے میرے سامنے اور آپ کے سامنے ہماری عبادات ہمارے بچوں کی غلط صحبت اور منفی رحجان کی وجہ سے کہیں ایسے ہی ضائع نہ ہو جائیں جیسے زہرہ بی بی کی ہو گئیں ـ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر : شاہ بانو میر