عورت کا مقام

Women

Women

تحریر : علی عبداللہ
آٹھ مارچ عورتوں کے حقوق کا عالمی دن _ کیسی حیران کن بات ہے کہ نسل انسانی کی بقا اور خاندانوں کی تربیت کا سبب بننے والی عورت کو آج اپنے حقوق کی جنگ لڑنا پڑ رہی ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ معاشرہ خود ہی عورت کو منصفانہ حقوق فراہم کرتا اور اسے وہ عزت و احترام دیتا کہ عورت خود کو محفوظ تصور کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتی _ مگر یہاں یہ حال ہے کہ عورت کو کمتر اور کمزور جان کر زندگی کے ہر موڑ پر اسکے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے _ ہر موقعے پر اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ تم غلام ہو, ایسی غلام جو کبھی تو معاشرے کی خود ساختہ پابندیوں کی غلامی کرتی ہے تو کبھی جاہلانہ نظریات کے حامل خاندانوں کی غلام بن کر جانوروں جیسی زندگی بسر کرتی دکھائی دیتی ہے۔

موجودہ دور میں مغرب عورتوں کے حقوق پر بڑھ چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے اور دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا ہے کہ عورت بھی خدا کی بنائی ہوئی مخلوق ہے جسے اسکے حقوق دلانا مغرب کا ایک اہم ایجنڈا ہے _ لیکن اگر تاریخ کے ورق پلٹے جائیں تو مغرب سمیت دنیا کے کئی حصوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم اور ناروا سلوک ہوتا دکھائی دیتا ہے _ عہد یونان ہو یا رومی سلطنت, عرب ہوں یا فارس والے ,ماسوائے اسلام کے کسی مذہب اور معاشرے میں عورت کو انفرادی حیثیت میں قبول نہیں کیا گیا _ توریت کے حامیوں کے نزدیک تو عورت کو روز اول سے ہی گناہ گار تصور کر لیا گیا ہے _ آدم کو جنت سے نکلوانے کی واحد ذمہ دار عورت کو ہی کہا گیا ہے _ اسی طرح ہندومت کے پیروکار دھرم شاستر کو حوالہ بنا کر آج تک عورت کو اتنے حقیر سمجھتے ہیں کہ اسے شوہر کی وراثت میں کوئی مستقل حصہ نہیں دیا جاتا بلکہ شوہر کی موت پر مرد کے ساتھ عورت کو بھی زندہ جلا دیا جاتا تھا _ اب ٹھہرے عرب تو اسلام سے پہلے تک عورت صرف شاعری کی حد تک محدود تھی _ عورت کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں اور مظالم کی ایک لمبی فہرست قدیم عربوں کے ساتھ منسلک ہے _ لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا اور اسے وراثت سے محروم رکھنا عرب میں عام رواج تھا۔

اسلام نے عورت کو ایک مستقل شخصیت کا روپ دیا ہے _ وہ معاشرے کا ایک اہم رکن ہے جسے زندگی کے ہر شعبے میں منفرد حقوق دیے گئے ہیں _ اسے وراثت میں باقاعدہ حصہ دیا جاتا ہے , وہ جائز طریقہ کار اپنا کر کما بھی سکتی ہے اور مہر کی حقدار بھی ٹھہرتی ہے _ یہاں تک کہ ام الکتاب, کتابوں کی ماں اور ام القریٰ شہروں کی ماں جیسے الفاظ استعمال کر کے قران نے عورت کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے _ ملکہ سبا, مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ قران کی دو سورتوں کا نام بھی عورتوں سے منسوب کر کے قران نے پوری انسانیت کو باور کروایا ہے کہ عورت ایک مستقل شخصیت کی حامل ہے اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ اشرف المخلوقات عورتیں بھی ہیں۔

عہد جدید میں حقوق نسواں کا نعرہ 1908 میں ہونے والے ایک مظاہرے سے شروع ہوا لیکن ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کے مفہوم بدلتے گئے _ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ حقوق نسواں کے نام پر عورتوں کو بازاروں اور عوامی جگہوں کی زینت بنا کر انھیں ان کے اصل حقوق سے دور کیا جا رہا ہے _ پاکستان سمیت دنیا بھر میں حقوق نسواں کی نام نہاد علمبردار این جی اوز اور دیگر ادارے مخصوص طریقوں سے عورتوں کو فحاشی اور دیگر خرافات کی جانب راغب کرنے میں جتے ہوئے ہیں _ فیشن کے نام پر نت نئے فحاشی کے انداز معاشرے میں جنسی جرائم میں اضافے کا سبب بن چکے ہیں _ یورپ امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں دفاتر اور دیگر جگہوں پر عورتوں کو ہراساں کرنا اور ان سے چھیڑ خانی کے واقعات عام ہیں _ حقوق نسواں کا علمبردار یورپ تمام تر آزادی کے باوجود ریپ کے واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح سے نبرد آزما ہے _ پاکستان میں جہاں عورتوں کو مصنوعات کی تشہیر کے بہانے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں لڑکیوں کو ونی کرنا, قران سے شادی, تیزاب گردی اور غیرت کے نام پر قتل جیسی جاہلانہ اور ظالمانہ طریقوں نے عورتوں کو احساس کمتری کا شکار کر دیا ہے _ اب یہ حکومت کی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ ان رسومات کا سختی سے خاتمہ کرے تاکہ عورتیں معاشرے میں خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے _ عورتوں کو بہترین طریقہ زندگی سے آشنا کروا کر اسلام نے عورت کو نہایت مضبوط اور محفوظ بنا دیا ہے _ لیکن ماڈرنزم کی شکار عورتوں نے اسلام کو پس پشت رکھ کر عزت کمائی کم اور لٹائی زیادہ ہے _ برابری کے حقوق لینے کی جستجو میں اب عورت کی اتنی ذہنی تربیت ہو چکی ہے کہ اسے اپنی فطری ذمہ داریوں سے کوفت ہونے لگی ہے _ گھر کی چار دیواری میں باعزت زندگی گذارنے کو قید اور دقیانوسیت جبکہ باہر غیروں کی دلچسپی بن کر عزت و عفت لٹا دینے کا نام حقوق نسواں رکھ دیا گیا ہے۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر : علی عبداللہ