میں کیا لکھوں ؟

Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma

Muslim Children Were Burnt Alive In Meiktila – Burma

تحریر : محمد علی رانا
سوچو کے ساگر میں ڈوبا لکھنے تو بیٹھ گیا ہوں لیکن کیا لکھوں؟ وہ لکھوں جو دنیا کیلئے اِس وقت تماشے سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ۔ میں کیا لکھوں ؟ یہی کہ دنیا اِس وقت قتل و غارت جیسی ہارر فلم کے سینما سکوپ پروجیکٹر پر چلتے مناظر سے لطف اندوز ہورہی ہے کیا یہ لکھوں کہ برما/ میاں نمار اِس وقت آگ کی بھٹی اورسلاٹر ہائوس بنا ہوا ہے ۔ میں یہ لکھوں کہ میاں نمارمیں حوا کی بیٹیوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے ،انہیں برہنہ کر کے نازک اعضائوں کو تیز دھار خنجر وں سے جدا کیا جا رہا ہے ۔میں کیا لکھوں ؟ کہ معصوم بچوں کو چرغے کی مانند بھونا جا رہا ہے وہ زندہ روسٹ ہو رہے ہیں ۔یہی لکھوں کہ میاں نمار میں ظلم کا شکار ہونے والے ہزاروں روہنگیا مسلمان اِس وقت شدید پریشانی سے دوچار ہیں ، اُن کے گھر جل رہے ہیں ،اپنے اپنوں سے بچھڑ رہے ہیںوہ بے روزگار ہوچکے ہیں ۔اور کیا لکھوں؟ یہ بھی لکھ ہی دیتا ہوں کہ کئی دہائیوں سے روہنگیامسلمان بے بسی کی تصویر بنے امتِ مسلمہ کی جانب اُمید بھری نظروں سے بس دیکھ رہے ہیں۔

کیا اِس دور میں کوئی محمد بن قاسم پیدا نہیں ہو سکتا؟تیرہ لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کا اِس وقت کون مدد گار ہے؟ بچارے چھپ کر جان بچانے کیلئے سمندروں کے رحم و کرم پر کشتیوں میں جھولتے پھر رہے ہیں لیکن ان قسمت کے مارے مسلمانوں کو کوئی بھی ملک پناہ دینے کیلئے آمادہ نہیں ۔ایک ایک کشتی میں ادھ ننگے دو دو ہزار مسلمان بھرے ہیں جو بھوک ، پیاس اور گرمی کی شدت سے نڈھال اپنا ہی پیشاب پینے پر مجبور ہیںاور ایک دوسرے پر خود ہی بھوکے جانوروں کی طرح جھپٹ رہے ہیں۔میں کیا کیا لکھوں اور کیسے لکھوں؟ کہ میرا قلم حساس ہے۔

مجھے علم نہیں کہ اِس ہفتے روہنگیا مسلمان کِس تعداد میں شہید کیے گئے لیکن یہ علم ہے کہ ایان علی جیل میں کیا گل کھلا رہی ہے ، میٹرو بس کے منصوبے کہاں تک پہنچے ہیں ، جلسے جلوس کہاں کہاں نکالے جا رہے ہیں ، پیٹرول کی قیمتیں کیا ہیں، سیاسی دنگل میں کون شکست کھا رہا ہے ، کون سی نئی فلم آئی ہے ، کونسا گانا ہٹ ہے ،کونسی ہیروئین کا سکینڈل کِس ہیرو کے ساتھ چل رہا ہے ،فلاں سیاست دان نے کھانس دیا ہے ، فلاں ایکٹر کی کیا مصروفیات ہیں وغیرہ میرے علم میں بے پنہاں اضافہ ہے کہ مجھے میڈیا پر تقریباً یہی کچھ نظر آتا ہے البتہ چند لمحوں کی خبروں میں روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک دو لائنیں بھی نظر سے گزرتی ہیں جو اگلے ہی لمحے شوخ وچنچل سین بدلنے کے بعددل و دماغ سے بھی گزر ہی جاتی ہیں۔

Mass Killing of Rohingya

Mass Killing of Rohingya

ویسے میں نے اور کیا لکھنا ہے میرے قلم کار عزیز کتنا کچھ تو لکھ چکے اور ہم سب کچھ پڑھ چکنے اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ چکنے کے بعد پھر سے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہو چکے سچ میں ہمارے دل سختی مائل ہوچکے ہیں۔لارنس ہائوس مین افسانہ پتھر کا دل میں لکھتا ہے کہ چابک دست سنگ تراش ایک ایسا مجسمہ بنانے میں کامیاب ہوگیاتھا جو اُسے دنیا کی تمام چیزوں سے حسین اور پیارا لگنے لگا ۔پھر اُس نے دن رات دیوتائوں سے گڑ گڑا کر ، رو رو کر اور منتیں کر کے کِسی صورت اُس مجسمے میں جان ڈلوائی ۔عورت کا یہ مجسمہ جب جانبر ہوا تو اُس نے سامنے دیو قامت شیشے میں خودکے سراپے کو دیکھااور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے خالق کا سر ہتھوڑے اور نوکیلے کیل کی مدد سے زمین میں گاڑ دیا اور دیوتائوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اِس نے میری ناک لمبی اور ٹانگیں چھوٹی کیوں بنائی تھیں ؟

سچ ہے وہ مٹی کا مجسمہ پتھر کا دل رکھتا تھا ۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ہمارا دل اس مجسمے کی مانند پتھر سا سخت ہوچکا ہے ۔ دنیا کے تمام مسلمان ایک برادری ہیں اور برادری میں ایک فوتگی ہو جائے تو ماتم کی لہر پورے خاندان میں دوڑ جاتی ہے مگر آ ج ہماری برادری کے مسلمان سینکڑوںکی تعداد میں جانوروں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں لیکن ہمارے تھیٹر ، سینما ، کیبل ، رقص و راگ کی محفلیں ، پارٹیاں سب عروج پر ہیں عیش و نشاط کے سمندر بہہ رہے ہیں ۔ہم عملاً نہیں تو کیا قول فعل سے بھی کلمہِ حق بلند نہیں کر سکتے ؟بحریہ ٹائوں کے چیئر مین ملک ریاض نے اپنی مددآپ کے تحت برما کے سسکتے ، بے آسرا اور مظلوم مسلمانوں کی اِس مشکل گھڑی میں اُن کا پورا پورا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلے میں 10کروڑ روپے امداد کا علان کر دیا ہے۔ملک ریاض کی طرح اپنی مدد آپ کے تحت ہم لوگ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں بس سوچنا یہ ہے کہ کون کیا کر سکتا ہے؟

ذرا چشمِ تصور میں ایک حساس دل کے ہمراہ روہنگیا مسلمانوں کی خوںریزی کا مشاہدہ پورے ہوش و حواس میں کریں اُن مناظر کو نگاہوں کی جادوئی صندوقچی میں قید کر لینے کے بعد کیا حق حلال کا ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے اتر پائے گا ؟آزمائش شرط ہے پانی کا ایک گھونٹ تک شہ رگ میں اٹک نہ جائی تو کہیے گا ۔دنیا جانتی ہے مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے لیکن کِسی کے کان تلے جوں تک نہیں رینگ رہی اور کہیں ایک بچی کو ایک گولی چھو کر کیا نکل جاتی ہے تو اُس معاملے کو پوری دنیا کے ممالک اور میڈیا نیزوں پر اچھالتے ہیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ اب اِس مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھائے ۔میڈیا اِن مظلوموں کیلئے اِس قدر مثبت آواز بلند کرے کے دنیا کے تمام غیر مسلم ممالک دہل کر رہ جائیں اور اقوامِ متحدہ اِس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لے ۔وقت آن پہنچا ہے کہ تمام مسلمان متحد ہوجائیں اور یہ نہ بھولیں کہ آج اگر روہنگیا مسلمان ہیں تو کل ہم خود بھی کِسی آشین ویراتھوکے ناپاک ارادوں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ہم سب کو اپنا اپنا فرض نبھانا ہے اور جوبن پائے اپنا حصہ اِس جہاد میں شامل کرنا ہے خواہ وہ صرف لفظوں کے تیر ہی کیوں نہ ہوں۔

Mohammad Ali Rana

Mohammad Ali Rana

تحریر : محمد علی رانا
0300-3535195