نوجوانوں کا مستقبل

Student Smoking

Student Smoking

تحریر: خنیس الرحمن
نشے کی لت صرف یورپین ممالک میں تھی۔لیکن آج یہ سلسلہ چلتا چلتا پاکستان تک آ گیا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے یہ صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں نشے کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ پاکستان کی یونیورسٹیز، کالجز و سکولز کے طلبہ نشے کا شکار ہیں۔ آج پاکستانی حکومت کو یہ چاہیے تھا کہ طلبہ کو اس بات سے روشناس کروائے کہ ہمارا مقصد مغرب کی تقلید نہیں ہے بلکہ ایک باوقار قوم بننا ہے اور نصابی کتب میں بھی نشے کے حوالے سے طلبہ کو آگاہ کرنا چاہیے تھا نہ ہی اس کی روک تھام کےلئے کوئی اقدام کیا گیا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ نشے میں مبتلا ہیں۔
قارئین!یہ پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد ہے جہاں کے نجی اسکولز میں 44 سے 53 فیصد طلبہ نشے کا شکار ہیں۔اس کا سب سے زیادہ شکار امیر ترین طلباء ہیں۔بڑے اسکولوں کے نصف سے زائد طلبہ نشے کا شکار ہیں۔آٹھ سال تک کے بچہ منشیات کے عادی بن چکے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کے بڑے سکولوں میں طلبہ کو منشیات فراہم کرنے میں اساتذہ اور سینئرز طلبہ کا ہاتھ ہے اور شہر اقتدار کے بڑے بڑے اسکولز اور کالجز کے کیفے ٹیریاز،کینٹین میں سرعام منشیات فروخت ہوتی ہے۔

سابقہ حکومت کے دور میں جب منشیات سے متاثرہ افراد کا سروے کیا گیا تو ان کی تعداد ایک کڑوڑ تھی اور زیادہ تر اس میں بچے شامل تھے۔ انسداد منشیات کنٹرول ڈویژن اسلام آباد کے مطابق شہر کے بڑے چار سکولوں میں منشیات کی سپلائی کی جاتی ہے ان میں تین سرکاری اور ایک نجی سکول شامل ہے اور 2016 ء میں 30 اپریل تک انسداد منشیات کنٹرول نے 55 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔لاہور کے علاقے ڈیفینس میں چیونگم کے ذریعے نشے کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس چیونگم کا نام فلیتو ہے اور اس کی قیمت 2000 سے زائد ہے۔

راولپنڈی کے اکثر سکول و کالجز کے طلبہ نشے کا شکار ہیں۔شہر کے بڑے سرکارسکول جو کے کشمیر روڈ پر واقع ہے اس سکول کے ایک طالبعلم کا کہنا ہے کہ میرے کچھ ہم جماعت شیشہ(یہ بھی ایک نشے کی قسم ہے) پیتے تھے جب میں انہیں منع کرتا تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے اس میں نشہ نہیں ہوتا سب فضول باتیں ہیں اس کے پینے کا بہت ہی مزا ہے اور وہ پین شیشہ استعمال کرتے تھے استاذ کی غیر موجودگی میں اکثر اسکا استعمال کرتے۔اس نشہ آور شیشہ کے متعلق ایک نیوز ویب سائٹ وائس آف امریکہ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں یہ لکھا تھا کے ششے کا ایک کش سو سیگریٹس کے برابر ہے۔اس میں تمباکو کے علاوہ کاربن مونو آکسائڈ، آرسینک اور دیگر کیمیائی مادے ڈالے جاتے ہیں۔

Drugs Use

Drugs Use

کاربن ڈائی آکسائیڈ جسم میں آکسیجن کو جلا کر اہم اعضاء میں سما جاتی ہے۔پھیپھڑوں کا کینسر اور مختلف سانس کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور پاکستان میں 60 سے زائد فیصد نشے کا استعمال کیا جاتا ہے۔آج میں والدین سے پوچھتا ہوں کے انکے بچے نشے کا شکار کیوں ہیں ؟۔اس کے قصور وار خود والدین ہیں۔جو اپنے بچوں کو بے جالاڈ اور پیار میں تباہ کررہے ہیں ۔آپ بس یہی کہتے رہیئے گا جب بڑا ہوجائیگا تو خود ہی سمجھ جائیگا لیکن پتہ اس وقت چلتا ہے جب بچہ بُرے دوستوں کی مجلس میں بیٹھتا ہے اور وہ اسے نشے کا راستہ دکھاتے ہیں اور وہ اپنے جمع پونجی ساری اس نشے پر لگا دیتا ہے اور جب جمع پونجی ختم ہوجاتی ہے تو بچہ والدین سے ضروت سے زیادہ رقم کا مطالبہ کرتا ہے اور اپنے قیمتی سے قیمتی سامان کو بیچ ڈالتا ہے اور اس وقت جا کر کہیں والدین کو ہوش آتا ہے جب پانی سر سے گزر گیا ہوتا ہے۔

کئی دفعہ جب بچے والدین سے نشے کی رقم مانگیں تو والدین نا دیں تو نوبت قتل تک آ پہنچتی ہے ۔معروف سکالر اور مصنف عبد المالک مجاہد اپنی کتاب میں ایک واقعہ درج کرتے ہیں ایک شخص جو مصر کا رہنے والا تھا کاروبار کے سلسلہ میں کسی ملک میں گیا ہوا تھا۔وہ اپنے لخت جگر کو انجینئر بنانا چاہتا تھا ۔اس کا باپ اس کی ہر خواہش کو پورا کرتا اور جتنی رقم کا مطالبہ کرتا اس کا باپ اس کو ادا کردیتا۔وہ امیر ترین باپ کا بیٹا تھا اس لئے برے دوستوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگا یہاں تک کے وہ نشے کا شکار ہوگیا اس نے اپنی والدہ سے جب بھی رقم مانگی اس کو والدہ نے اس کو رقم ادا کی ایک دن اس کی والدہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ کس لئے اتنی رقم مانگتا ہے۔ایک دن اس نے والدہ سے رقم کا مطالبہ کیا لیکن والدہ نے انکار کردیا ۔وہ کچن میں گیا اور چھری لا کر ماں پر وار کیا اور اس کو قتل کردیا ۔واقعہ تو بہت طویل ہے۔

آج منشیات کو کنٹرول کرنے والے اداروں کی تمام کوششیں ناکام ہورہی ہیں۔منشیات کی فراوانی اور طلبہ میں اس کے استعمال کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے۔قوم کا مستقبل جس تباہی کے دہانے پر ہے اس پر حکومت اور سنجیدہ طبقوں کی خاموشی نقصان دہ ہے۔اگر ہماری حکومت نے ان کے حوالے سے کچھ نہ کیا تو یونیورسٹیز میں پڑھنے والے طلباء انجینئر وڈاکٹر بننے کی بجائے نشئی ہی بنیں گے اور والدین بھی جب بچے میٹرک تک پہنچ جاتے ہیں تو ان کی تربیت کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔جس کے سبب بچے بگڑ جاتے ہیں ،فضول خرچی کرتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت سیگریٹ نوشی پر ہی لگا دیتے ہیں میں نے اکثر میں کم عمر بچوں کو سیگریٹ پیتے دیکھا ہے۔

Smoking

Smoking

اس کے علاوہ والدین جب اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لئے کسی دوسری جگہ بھیجتے ہیں تو والدین بس یہی سمجھتے ہیں ہمارا بچہ پڑھ رہا اور ایک نا ایک دن وہ انجینئر یا ڈاکٹر بنے گا لیکن وہ طلباء ہاسٹل میں چند برے دوستوں کی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے ہیں تو وہ بھی انہیں کی صحبت اختیار کرلیتے ہیں خدارا!والدین بچوں کا مستقبل برباد نہ کریں اوروالدین واساتذہ بچوں کی تربیت ایسے انداز سے کریں کہ مستقبل میں وہ محمد بن قاسم ،موسٰی بن نصیر اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں ۔یہ نہ ہوں آپ ان کی تربیت نہ کریں تو وہ مغرب کے نقش قدم پر چلیں اور انہیں کو اپنا آئیڈیل مانیں اس کا خمیازہ آپ ہی کو بھگتنا پڑے گا۔

تحریر: خنیس الرحمن