اسلام میں صبر و برداشت کی اہمیت

have patience

have patience

اگر اسلام کو امید کا دین کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ یہ ایسا صابطہ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں مایوس نہیں کرتا۔ غربت اور بدحالی میں یہ فراخی اور خوشحالی کی امید دلاتا ہے۔ بیماری میں صحت کی امید کیساتھ ساتھ گناہوں کے مٹنے کی نوید سناتا ہے، گناہگاروں کو توبہ کا راستہ دکھاتا ہے۔

غرض اسلام وہ طرز حیات ہے جو کسی کو ایسی صورتحال سے دوچار نہیں کرتا جہاں آگے نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہ گیا ہو۔

اسلام میں خود کشی حرام ہے، اسلیے کہ خودکشی کرنیوالا حالات سے دلبرداشتہ ہو جاتا ہے کہ وہ موت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ صورتحال کا روشن پہلو دکھاتا ہے اور مایوسی دور کرتا ہے۔

انسانی زندگی میں دکھ سکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آدمی پر بیماری بھی آتی ہے، جو زندگی میں تلخی اور تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اسلام حوصلہ دیتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” مرد مومن کو جو بھی دکھ، بیماری، پریشانی، رنج وغم اور اذیت پہنچتی ہے، یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ عن چیزوں کے ذریعے اسکے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ ( بخاری و مسلم )

پس بیماری بھی ایکطرح سے رحمت ہے، کیونکہ کوئی فرد بشر ایسا نہیں جس سے کبھی گناہ کا صدور نہ ہوا ہو، یوں ہر شخص کو اللہ کی رحمت کی ضرورت ہے جو اسکے گناہوں کو مٹا دے، چناچنہ بیماری اور مصیبت گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” کسی مرد مومن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے، مرض سے یا اسکے علاوہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اسکے گناہوں کو اسطرح جھاڑ دیتا ہے جسطرح خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔ ( بخاری و مسلم )

جب کوئی بندہ بیماری ہو اور اسکے سامنے اسلام کی یہ تعلیم ہو کہ بیماری کی تکلیف اسکے لیے گناہ مٹانے کا وسیلہ بن جائیگی تو جہاں اسکے لیے تکلیف قابل برداشت ہو گی، وہاں اسکو سکون بھی ہو گا کہ اس پر سے گناہوں کا بوجھ اتر رہا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” اللہ کے بعض ایمان والے بندوں یا ایمان والی بندیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب اور حوادث آتے رہتے ہیں، کبھی اسکی جان پر، کبھی اسکے مال پر، کبھی اسکی اولاد پر( اور اسکے نتیجہ میں اسکے گناہ جھڑتے رہتے ہیں یہاں تک کہ مرنے کیبعد وہ اللہ کے حضور اس حال میں پہنچتا ہے کہ اسکا ایک گناہ بھی باقی نہیں ہوتا۔ ( جامع ترمذی )

بعض لوگ دنیا میں حد سے زیادہ دکھ، تکلیف، اور بیماری کا شکار بنتے ہیں۔ ان لوگوں کو اجر اسی مقدار میں ملیگا جس مقدار میں انہوں نے مصیبت اٹھا لی۔

آدمی کیلئے سب سے بڑا صدمہ اسکے کسی عزیز کی موت ہوتا ہے مگر موت تو اٹل حقیقت ہے، آج نہیں تو کل ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ کسی عزیز کی وفات پر جزع فزع نہ کیا جائے، نہ ماتم کیا جائے، شکوہ و شکایت کے الفاظ زبان پر لائے جائیں بلکہ اس صدمے کو اللہ کا فیصلہ سمجھ کر صبر سے برداشت کیا جائے۔

patience

patience

اللہ کی رضا کی خاطر صدمے کے موقع پر صبر کا یہ مظاہرہ اسکے لیے اجر عظیم کا باعث بن جائیگا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے ایمان والے بندے ( یا بندی ) کے کسی پیارے کو جب میں اٹھا لوں، پھر وہ ثواب کی امید میں سبر کرے تو میرے پاس اسکے لیے جنت کے سوا کوئی معاوضہ نہیں ہے۔ ” ( صحیح بخاری )

کبھی کبھی کوئی مصیبت یا پریشانی انسان کی اپنی غلطی کیوجہ سے بھی آن پڑتی ہے۔ ایسی صورت میں انسان عملی طور پر اپنی غلطی کی اصلاح کرے۔ ہر مصیبت اللہ اللہ تعالیٰ کیطرف سے ہوتی ہے ( التغابن 11)

چنانچہ مصیبت کو صرف اللہ کے غضب اور قہر کا ظہور ہی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندون کیلئے اس میں خیر اور رحمت کا بڑا سامان ہے۔ اسکے ذریعے گناہوں کی صفائی اور تطہیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں اور اعمال میں کوتاہیوں کی تلافی ہوتی ہے۔

دنیا میں آنیوالی تکالیف اور بیماریاں اجر و ثواب کا باعث بنتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ آدمی شکوہ شکایت زبان پر نہ لائے، صبر کا مظاہرہ کرے اور اجر کی امید رکھے۔

fire

fire

قیامت کے روز بعض لوگ ایسے بھی ہونگے کہ انکے اعمال حسنہ بخشش کیلئے کافی نہ ہونگے مگر دنیا میں برداشت کی جانیوالی تکالیف کا اجر اعمال حسنہ کی کمی کو پورا کر دیگا اور حساب کے وقت ان پر یہ بات ظاہر ہو جائیگی کہ دنیا کی زندگی میں آنیوالی مصیبتیں اور بیماریاں اگر نہ ہوتیں تو نجات نہ ہو سکتی۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” قیامت کے دن جب ان بندوں کو جو دنیا میں مبتلائے مصائب رہے، ان مصائب کے عوض اجر و ثواب دیا جائیگا تو وہ لوگ جو دنیا میں ہمیشہ آرام و راحت سے رہے، حسرت کرینگے کہ کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں۔” ( ترمذی )

اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اندازہ کیجیے کہ ایک آدمی جو صحت کے ایام میں ذکر اذکار اور نیک اعمال کرتا ہے، جب کبھی وہ بیمار ہو کر اپنے اعمال حسنہ ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے اسکو بیماری کے دنوں میں وہی اجر دیتا ہے جو اسے اعمال حسنہ کرنے پر ملتا، یہ اسلیے کہ اگر وہ بیمار نہ ہوتا تو اپنے اعمال حسنہ کے معمولات پر ضرور عمل پیرا رہتا۔

قرآن مجید میں مصائب پر صبر کرنیوالے بندوں کو تین چیزوں کی بشارت دی گئی ہے۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص نوازش اور عنایت ہو گی اور وہ رحمت سے نوازے جائینگے اور ہدایت یاب ہونگے۔ ( البقرہ 157)

اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے کسی بندے کو بغیر کسی عمل کے بھی بخشش سے نواز سکتا ہے مگر بتقاضائے حکمت وہ بندے کی تکالیف اور بیماریوں کو اسکیلئے وسیلہ نجات بنا دیتا ہے یا پھر کسی دوسرے بندے کو اسکے حق میں کی جانیوالی دعا کے طفیل اسکی بخشش کر دیتا ہے۔

بہرحال صبر اور ثبات کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کیطرف سے ہے، چنانچہ اسی سے نیکی اور صبر کی توفیق طلب کرنی چاہیے۔ ” وما توفیقی اللہ باللہ العلی العظیم”

تحریر: پرفیسر محمد یونس جنجوعہ
” A moment of patience in a moment of anger saves a thousand moments of regret.
( Ali ibne Abu Talib)

” The patience is not ability to wait, but the ability to keep a good attitude while waiting.”
(Adeel)