الفاظ کی مارکیٹ

Dreams Of World

Dreams Of World

مبلغ بارہ ماہ ہوئے ایک ملک میں خوابوں کی نئی دنیا بسائی گئی۔ ہمیں بھی پتہ چلا ہم بھی وہاں جا وارد ہوئے۔ جس مکان پر ہم گئے نیا دکاندار ، نیا انداز اور چند نئے سیل مین منظر کو دلفریب بنائے ہوئے تھے۔ لوگ دھڑا دھڑ آئے جا رہے تھے۔ جن میں سے زیادہ کی تعداد سابقہ ارباب بست و کشاد میں سے تھی۔ ہم نے مکان میں موجود ہوٹل پر کھانوں کی فہرست طلب کی ، تمام کھانوں کے نام وہی تھے بس ترتیب اوپر نیچے کردی گئی ، ورق رنگین اور لکھائی دیدہ زیب تھی۔ چارونا چار خیال آیاکہ مبادا انکا ذائقہ مختلف ہو ، ایک پلیٹ انصاف اور دو عدد شفاف بھرتیوں والی روٹی کا آڈر دیا۔ ہم بیٹھے رہے ، بیٹھے رہے لیکن چھوکرا نہ آیا۔ تنگ آکر مالک سے غصہ ہوئے تو اس نے ہمیں لات جڑدی ، اس کی دیکھا دیکھی خوبصورت کپڑوں اور اعلی اخلاق سے مزین تمام لوگ ہم پر حملہ آور ہوئے تو ہم بھاگ نکلے۔

گلیوں ، سڑکوں میں سے ہانپتے کانپتے ایک بورڈ کے پیچھے جاچھپے ، کانی آنکھ سے دیکھتے ، دکھاتے جب کوئی آتانہ دکھائی دیا تو ہم نے تنہائی کے عالم میں بورڈ پر نظر دوڑائی۔ تو اس پر درج تھا”اپنا اشتہار بک کروائیں نقد اور آسان اقساط میں”۔ ہم بڑے پریشان ہوئے کیونکہ ہمارے پاس کوئی اشتہار نہ تھا۔ سوچتے سوچتے نتیجا یہ نکالا کہ چونکہ ہم نئے دیس میں خواب دیکھنے آئے ہیں اور بھوکے بھی ہیں۔ اس لیئے معلومات لینے عمارت کے اندر جاتے ہیں ممکن ہے کوئی چائے وائے پلا دے۔ ہم نے چہرے پرسے بال ہٹائے ، کپڑے جھاڑے اور عمارت کی جانب پھرتی سے مُڑے۔

Peoples Voting Election

Peoples Voting Election

جونہی اندر داخل ہوئے گارڈ نے اندر جانے سے روک دیا۔ ہم سمجھے کہ شاید کپڑے پرانے ہیں اس لیئے روکا جا رہا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں تو ناداروں ، غریبوں کو محض ووٹ کیلئے زندہ رکھا جاتا ہے اور وہ کسی چنگی بھلی عمارت میں گھس بھی نہیں سکتے جب تک کے ہمسائے سے اچھا سوٹ مانگ کر پہن نہ لیں۔ ہاں البتہ تھانوں میں انہی کیلئے کمرے بنائے اور ایف ۔آئی ۔آر والی بک پرنٹ کرائی جاتی ہے۔ تاکہ الیکشن میں ٹھپہ درست مقام پر لگے۔ سمجھ گئے ناں ، خیر گارڈ نے پوچھا کیا کام ہے۔ ہم نے اپنی منشاء بتائی۔ اس نے فرمایا:”محض سیاسی اشتہار قسطوں میں بک کیئے جاتے ہیں اور بک کروانے کا وقت تاریکی کا ہوتا ہے۔ باقی تمام باتیں اندھیرا چھا جانے کے بعد آپ کے گوش گزار کی جائیں گی”۔ ہم الفاظ کی مارکیٹ سے باہر نکل آئے۔ خوابوں کے دیس میں بھی بے یارو مددگار۔

جیسے تیسے دن گزارا ، رات ہوتے ہی اندر داخل ہوئے۔ گارڈ نے سامنے بورڈ کی جانب اشارہ کیا۔ اس پر لکھا تھا۔”مین صفحہ پر خبر کے لاکھ روپے۔ اندرونی صفحہ پر پچاس ہزار۔ کالم کے دس لاکھ۔ ٹاک شو میں تعریف کے پچاس لاکھ۔ مخالفوں پر نازیبا الفاظ اور انکے خلاف الزامات کے اسی لاکھ۔ وغیرہ وغیرہ۔ لال رنگ سے لکھا تھا شرائط و ضوابط لاگو ہیں۔”ہم نے بورڈ کے ساتھ والے کمرے میں داخل ہونی کی جسارت کی انہوں نے ہماری خاطر مدارت کی اور قسطوں کے حوالے سے بتایا کہ نقد روپیہ کے علاوہ آپ ہمارے نااہل یاروں کوسڑکوں ، عمارتوں کے ٹھیکے دلوا دینا ، ہم نے کہا بھائی اگر ہم ہار گئے تو بولے یار آپ نہیں ہا رسکتے یہ لیجئے خواب اور اپنی عوام میں تقسیم کریں ، کامیابی آپ کے قدم چومیں گی۔

Dreams

Dreams

پھر مجھ سے مخاطب ہوئے”عزب ماب اگر خدا نہ کرے پھر بھی آپ ہار جاتے ہیں تو آپ کے بھانجے ، بھتیجے اور فلاں ماموں ‘آپ کا چچا کوئی تو کامیاب ہو گا ناں ”۔ ہم بولے بھائی انکو تو اب ٹکٹ نہیں ملے گا کیونکہ وہ لٹیرے ، راہزن ہیں اور اب تو ہمارے ہاں اس بات پر معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ میری بات سن کر وہ صحافی نما تاجر قہقہ لگا کر ہنسا اور کہا:”آپ بھی کمال کرتے ہیں وہ جو حق و باطل کی جنگ کرنے والا للکار رہا تھا ناں وہ بھی ہمارے ہاں سے خواب خرید کر گیا تھا اور عوام میں تقسیم کر دیئے یاد رکھنا بھلے مانس عوام کو محض خواب مل سکتے ہیں تعبیر نہیں”۔ ہم افسردہ ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ باقی قصہ پھرسہی کیونکہ اب ہم کچھ دیر سو کر خواب دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں ایک گورے چٹے بندے نے دیئے ہیں۔ دعا کر نا تعبیر مل جائے۔ وگرنہ ہم اپنے ملک کو لوٹ جائیں گے اور اپنے مخدوموں ، وڈیروں ، صنعت کاروں اور تھانیداروں کے زیر سایہ پھر سے نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔

تحریر : ایس یو سمیع