اللہ نہ کرے

police arrest

police arrest

وہ لمحے میرے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھے جب میں خود کو بے بس، لاچار اور مجبور تصور کر رہا تھا۔کیسا منظر تھا تین مسلح افراد میرے گھر واقع سیکٹر الیون اے نارتھ کراچی میں گھس آئے۔ مجھ سمیت اہل خانہ کو یرغمال بنا کر گھر کی ایک ایک شے کی تلاشی اور پسند کا سامان لوٹ رہے تھے،ایک مسلح نوجوان ہماری نگرانی کر رہا تھا اور2مسلح نوجوان پورا گھرالٹ پلٹ کررہے تھے ۔
ڈاکوئوں کا ٹولہ ہمارے گھر میں24نومبر2011ء کی صبح سوا آٹھ بجے کے قریب بچوں کی تعلیمی ضروریات کے لئے رکھے گئے ڈرائیور آصف کو یرغمال بنا کر گھر میں آیا۔اسی اثنا میں میرا بیٹا عمر جوامتحان دینے کے لئے انسٹیٹیوٹ جارہا تھا ابھی دروازے کے قریب ہی پہنچا تھا کہ ڈاکوئوں نے اسے بھی یرغمال بناکر واپس مڑنے پر مجبور کیا۔
وہ سب لائونج کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے پہلے میرے چھوٹے بیٹے اسعد جو کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا اسے پھر میری اہلیہ کو جو دوسرے کمرے میں ہم سب کو ناشتہ کرانے کے بعد خود ٹی وی دیکھتے ہوئے چائے پی رہی تھی  ڈاکو اسے بھی ڈرائنگ روم میں  لے آئے جہاں میں پہلے سے موجود تھا۔ گھر میں بچوںکی آیا اماں باورچی خانے میں چائے اپنے کپ میں انڈیل رہی تھی ان ڈاکوئوں نے اسے بھی وہاں سے لا کر ہمارے ساتھ بٹھا دیا۔ بچوں کی آیاکو ہم اماں کہتے ہیں وہ بیوہ خاتون ہے،20برس قبل اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہمارے پاس میرے بیٹے عمر کی دیکھ بھال کے لئے آئی تھی کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کے باعث ہمارے گھر میں ممبر کی حیثیت سے بچوںکی دیکھ بھال کرنے لگی۔ اماں نے ڈائننگ ٹیبل پر موجود قرآن پاک اٹھا کر ان ڈاکوئوں کو کلام پاک کے واسطے دئیے لیکن وہ نہ مانے، ڈاکو ہم سے قیمتی اشیاء سے متعلق پوچھنے لگے، اہلیہ نے بتایا کہ گھر کی صورت دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا تو کہنے لگے ہمیں جواطلاع دی گئی ہے وہ غلط نہیں ہوسکتی۔ ڈاکو موبائل پر کسی سے باتیں کرنے لگے پھر ایک ایک کمرے، ہاتھ رومز،کچن، اسٹور سب کھنگال ڈالا۔میز، شوکیس، کی درازیں، کمرے کی الماریاں،صندوق کوئی ایسی چیز ان کی دست رست سے محفو ظ نہ رہ سکی۔ دروازے کی کھونٹی پرٹنگے اہلیہ کے پرس خالی کر دئیے۔
یہ سب آنناً فانناً نہیں بلکہ پونے دس بجے تک لوٹ مار جاری رہی۔ڈاکوئوں کا کہنا تھا کہ وہ صرف رقم اور قیمتی اشیاء ڈھونڈ رہے ہیں۔ موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن انہوں نے آتے ہی لینڈ لائن فون کی تار کاٹ دیے۔تمام  موبائل فونز چھین کر اپنے پاس رکھ لئے ۔ شاپرز، دستی بیگ میں رقم ٹھونسی ، طلائی زیورات پینٹوں کی جیبوں میں ڈالی اور دیگر قیمتی اشیاء چادر میں لپیٹ کر ہمیں خاموش بیٹھا رہنے کی تاکید کرکے نکل گئے۔
کئی منٹ خاموشی کے بعد جب ہم نے دیکھا تو5موبائل فونزکے سیٹ سمز سمیت،2لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی اشیاء لوٹ کر لے جائی  جاچکی ہیں۔بڑے بچے نے بتایا کہ اس کا انڈرویر تک نہیںچھوڑا وہ بھی ساتھ لے گئے، لائونج میں ٹرالی پر ایک ٹارچ رکھی ہوئی تھی جو لوڈشیڈنگ کے وقت استعمال میںلائی جاتی تھی وہ بھی مال غنیمت سمجھ کر لے اڑے۔ واہ رے تقدیر ۔۔۔۔ برسوں تنکا تنکا جمع کیا ایک جھٹکے میں سب چھین لیا گیا۔ ہم نے یہ سمجھ کر جمع کیا تھا کہ برے وقت میں کام آئے گا۔ بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کئے جاسکیں گے۔ فیسوں کی رقم جسے ہم ہاتھ لگانا گناہ سمجھتے تھے اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کے لئے جمع کئے مگروائے افسوس ایک ایسے علاقے میں جہاں ایک تنظیم کا راج ہے اس کا دعویٰ کہ علاقہ اس کا قلعہ ہے وہاں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں۔دن دہاڑے گھر لوٹ لئے جائیں، لوگوں کی کمائی مسلح افراد لوٹ کر لے جائیں۔ کوئی داد رسی نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، ہائے یہ بے بسی ۔۔۔۔میں کوئی صدر مملکت ، وزیراعظم یا مقتدر شخصیت نہیں کہ مجھے سیکیورٹی پروٹوکول کے تحت ملے۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ میں روزگار پر جائوں گا اور واپس گھر زندہ بھی لوٹوں گا یا نہیں؟،  گھر سے باہر جانے ے بعد جیب میں رکھی اشیاء محفوظ رہیں گی یا نہیں؟۔یہ کیسا معاشرہ ہم تخلیق کررہے ہیں کیا پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ لوگوں کی جان و مال تک محفوظ نہ ہوسکے۔ اربوں روپے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہمارے خون پسینے کی کمائی سے خرچ ہوں اور مسلح افراد جب چاہیں کسی کا گھر لوٹ لیں یا جان سے مار دیں۔
دہشت کے گزارے ہوئے ڈھائی گھنٹے، ایک ایک لمحہ بے بسی کی کہانی سنا رہے ہیں، بچوں کی فیسوں کے لئے جمع کی گئی رقم، کمیٹی کی امانتاً رکھوائی گئی رقم جو پڑوس کے گھر والوں کی گلستان جوہر منتقلی کے باعث اہلیہ پر بھروسہ کرکے دے دی گئی تھی۔ اس ڈاکو راج سے کیا معاشرتی اقدار کو ٹھیس نہیں لگے گی؟ اس کرپٹ نظام میں معاشرے کی یہی ایک بھروسے والی اچھائی باقی تھی، کیا ہم اس قابل نہیں رہیں گے کہ لوگ ایک دوسرے پر اعتبار کرسکیں۔ برے کاموں کے اصول  تواٹوٹ ہیں وعدے نبھائے جاتے ہیں۔ اچھے کاموں پر اب یہ کاری ضرب لگائی جارہی ہے تاکہ معاشرے سے اخلاقی قدر یںبھی ختم ہو جائیں۔
کیا ریاست کی ذمے داری نہیں کہ وہ معاشرے کو خرابیوں سے بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے، لوگوں کے جان و مال کو تحفظ دے۔ چور، ڈاکو، لٹیروں کو پکڑے اور انہیں قرار واقعی سزا دے۔کیا عدالتوں کو ایسا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ معاشرے کی گندگی صاف کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکے؟ عدالتیں قانون نافذکرنے والے اداروں سے قوانین کے اطلاق اور عملدرآمد سے متعلق باز پرس کرسکیں۔
چھپن برس کی زندگی میں کئی کٹھن وقت گزرے ۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ پھر حوصلہ دیا۔ ڈھائی گھنٹے کرب کی ساعتیں پورے عرصے پر بھاری پڑگئیں۔ میں خود کو دلیر بہادر سمجھتا تھا کہ کسی بھی وقت کا مردانہ وار مقابلہ کرسکتا ہوں۔اذیت کے لمحے گزارنے کے بعد سوچنے پر مجبور ہوں کہ معاشرے کی نیک قوتوں میں اب بری طاقتوں سے لڑنے کی قوت ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم جس پستی کی طرف جارہے ہیں وہاں سے نکلنا مشکل ہے ،کون ہے جو برائی کو جڑسے ختم کرسکے گا؟۔ایسا فرد، افراد یاادارہ مجھے نظر نہیں آتا۔قیامت صغریٰ تو دیکھ لی بس اللہ مجھے اور اہل خانہ کو قیامت دیکھنے سے بچالے۔ہم حرم پاک کی حدود میں ٹھکانہ تو نہیں بناسکتے ورنہ اس سے بہتر جگہ دنیا میںکہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے میرے پاک سرزمین پاکستان کو امن کا گہوارہ ہی بنا دے۔ کون جانے لوٹ کا مال کتنے دن چلے گا۔اذیت،کرب، بے بس ، لاچار اور مجبور کرنے والوں کو کب حساب چکانا ہوگا۔مجھ پر بیتی بپتا کا جو بھی انجام ہو۔اس کے اثرات میرا گھر کا صفایا کرنے والوں پر، ریاستی حکام، مقتدر شخصیات اور ہمارے حقوق کا تحفظ کرنے کے دعویداروں پر تو نہیں پڑیں گے مگر میں اور میرے اہل خانہ برسوںاسی خوف و ہراس اور بے بسی کی کیفیت میں رہیں گے اللہ تعالیٰ کے کرم سے حالات اچھے بھی ہوئے تو کیا ہم پھر اذیت ناک لمحات سے دوچار ہوں گے؟۔ اللہ نہ کرے۔
تحریر :   محمد اجمل خان