اَمن کی آشا بھی آج مجروح ہوگئی

Zeeshan Abbasi

Zeeshan Abbasi

آج طلوعِ فجر کے ساتھ جب آنکھ کھلی تو میڈیا کے کئی چینلز پر ذیشان صاحب کی خبر سلائیڈ پر چل رہی تھی۔ ذیشان عباسی سب کے لئے معروف نام نہ سہی مگر کرکٹ کے متوالوں کیلئے معروف نام ہے۔ کیونکہ چاہے کرکٹ آنکھ والوں کی ہو یا بلائنڈ کی ، شیدائی تو کرکٹ کے جنونی ہیں۔ ہمارے یہاں لاہور میں جب سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تھا تو اس کے فوراً بعد ICCسمیت تمام ملکوں کی ٹیموں نے یہاں آنے کو سیکوریٹی ریزن بتا کر منع کر دیا اور ہمارے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ آج تک بند ہے۔ مگر آج کا واقعہ کوئی سیکوریٹی ریزن نہیں بلکہ سیدھا سیدھا ہارنے پر کپتان کو تیزاب پلا کر مارنے کا پلان نظر آتا ہے۔ آج صبح سے رات ہوگئی خبروں کی رو گردانی کرتے ہوئے مگر نہ ICCاور نہ کسی اور ملک نے بھارت جاکر کرکٹ نہ کھیلنے کا اعلان کیا اور نہ اس خبر کی مذمت کی۔ انٹر نیشنل کرکٹ کی سطح پر یہ تفریق کی وجہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ جبکہ یہ فعل جو پڑوسی ملک میں کھیلا گیا ہے انتہائی گھٹیا، شر انگیز اور گھنائونا عمل ہے کہ بھارت کو عبرتناک شکست دینے والے بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان کو صبح پانی کی جگہ تیزاب سے حلق تَر کر دیا گیا اور کپتان ذیشان عباسی گرائونڈ میں اگلے میچ کے بجائے ہسپتال کے کمرے میں پہنچا دیئے گئے۔ اور حد تو دیکھئے کہ یہ کام بینائی سے محروم افراد کیلئے بینائی والوں نے انجام دیئے ہیں۔

ہم تو دور بیٹھے ہیں اور میڈیا کے ذریعے ہی ان کی خیر خبر مل رہی ہے ورنہ نہ جانے اس وقت ذیشان عباسی کن حالات میں اور کن لوگوں کے رحم و کرم پر ہونگے۔ وزارتِ خارجہ نے تو شدید احتجاج کیا ہے اور اس ضمن میں خط بھی لکھا ہے ۔ پڑوسیوں کو اس طرح کی حرکت زیب نہیں دیتی۔ اب ان کو چاہیئے کہ اپنے اس داغ کو دھونے کیلئے ذیشان عباسی کی صحیح سمت میں علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم کریں اور اللہ جلد از جلد انہیں صحتیابی عطا فرمائے۔گو کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تیزاب ذیشان کے پیٹ میں نہیں گیا اگر چلا جاتا تو ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے تھے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔

امن کی آشا کا راگ الاپنے والے کہاں ہیں۔ یہ امن کی آشا تو دونوں ملکوں میں موجود ہیں مگر کیا کر رہے ہیں ان کی طرف سے کوئی مذمتی بیان تک نہیں آیا آخر کیوں؟یہ تو امن کی آشا کے حامیوں کے لئے انڈیا سے جدید تحفہ ملا ہے تو اس پر خاموشی کیوں؟ چند دن پہلے تک امن کی آشا کو لیکر بڑا شور بپا تھا ، ان سے امن کی بات کی جاتی ہے جنہیں امن کا پتہ نہیں کہ امن شئے کیا ہے۔ ایسے لوگ جو سازشوں میں ملوث ہوں ، ہماری کرکٹ ٹیم کی توہین کرتے ہوں،ہمارے لوگوں کو سرحدوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالتے ہوں وہ ہم سے امن کی بات کرتے ہیں۔ٹھیک ہے امن اچھی بات ہے مگر دوسری طرف بھی تو اس امن کے معنی کو سمجھنے والے ہوں۔ آج جو کچھ ذیشان عباسی کے ساتھ ہوا کیا یہ امن کے ذمہ دار کر سکتے ہیں۔ ہمیں امن کی ضرورت ہے اور امن چاہیئے بھی مگر دوسری طرف بھی تو امن کا کردار صاف ستھرا ہونا چاہیئے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں دیس کی تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور دشمنی پر مبنی رہی ہے تاہم امن کی آشا نے جو کردار ادا کیا صرف امن کی خاطر تو آج کے واقعہ پر بھی احتجاج کیا جانا چاہیئے تھا کہ یہ کیسا امن قائم ہوا ہے جہاں درِ پردہ تیزاب سے سواگت کیا جا رہا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امن کی آشا کامیاب نہیں ہوئی ، لازمی امر ہے کہ امن کی آشا جنوبی ایشیا میں معاشی انقلاب و خوشحالی لا سکتی ہے۔ اس ضمن میں دونوں گروپوں کو یہ بھی باور کرانا ہوگا کہ انٹر نیشنل سطح پر گئے ہوئے کھلاڑیوں کے ساتھ یہ برتائو کیا جا سکتا ہے تو پھر عام لوگ جو اپنے عزیز وں اور رشتہ داروں سے ملنے پڑوسی ملک جاتے ہونگے تو ان کے ساتھ کیسا برتائو کیا جا سکتا ہے۔ امن کی آشا والوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے اور انہیں چاہیئے کہ اس امن کو نظر نہ لگنے دیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس سفر میں پیش آنے والی مشکلات اور واقعات پر بھی توجہ ملحوظ رکھیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

Pakistan India

Pakistan India

جیسا کہ پاک بھارت مینجمنٹ سمٹ لاہور میں ہوئی تھی ، افتتاحی سیشن میں تمام ہی مقررین نے اس امر پر بے خوف و خطر یہ بیان دیا تھا کہ بھوک، بیروزگاری اور دہشتگردی سے بچانے کیلئے پاکستان اور بھارت ایک دوسرے سے ہر معاملے میں تعاون کریں اور اگر مل کر نہ چلے تو دونوں اقتصادی طور پر تباہ ہو جائیں گے۔ بلا شبہ اس میں کوئی شک نہیں مگر یہ تیزاب گردی کیا دہشت گردی سے کم ہے جو آج ذیشان عباسی کے ساتھ ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ اس واقعے میں براہِ راست کوئی بڑا ہاتھ نہ ہو مگر اس واقعے کو در گزر کرنا بھی تو ممکن نہیں ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہوٹل انتظامیہ سے مل کر کوئی پاکستان دشمن قوت پڑوسی ملک کو بدنام کرنا چاہتا ہو اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی تحقیقات اونچے سطح پر کرایا جائے تاکہ جو داغ آج لگا ہے اس کا سدِّباب مل سکے۔ لازمی ہے کہ CCTVفوٹیج ہوٹل میں ہوگا اس کی مدد سے تمام کرتا دھرتائوں کو اس معمے کا حل تلاش کرنا چاہیئے اور آئندہ اس قسم کے واقعات نہ ہو ں اس پر بھی عمل در آمد ہونا چاہیئے ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا واقعہ پاکستان میں رونما ہوتا تو کیا ہمارا پڑوسی ملک اور ان کا میڈیا اتنی آسانی سے معاملہ کو رفع دفعہ کر دیتا ، شاید نہیں ، کیونکہ انہیں تو ایشو چاہیئے ہوتا ہے لڑنے کا اور لڑانے کا، اور اب تک وہاں کی کتنی ہی کرکٹ تنظیمیں اس معاملہ کو اچھال چکی ہوتیں، مگر یہی واقعہ چونکہ پاکستان کے کھلاڑی کے ساتھ پیش آیا ہے تو ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ دنیا میں شیطانیت کا کھیل تو بے موقع بھی کھیلا جا تا رہا ہے اسی طرح آج صبح بھی ایک شیطانی کھیل کھیلا گیا جب ذیشان عباسی کو ایسڈ پینا پڑا۔ جو نہ صرف پوری دنیا کیلئے لمحۂ فکریہ ہے بلکہ انڈیا کے لئے بھی انہونی اور مذموم کاروائی ہے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ وقتی طاقت کا غرور جس نے بھی کیا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے مٹا ڈالا ہے ۔ اس لئے آج وہاں کے ہوٹل مینجمنٹ نے بھی ایسڈ گردی کرکے اپنی طاقت کو بامِ عروج دیا لیکن یہ یاد رہے کہ اس طرح کے حربے نہ صرف آپ کے لئے بلکہ آپ کے ملک کے بھی مفاد میں نہیں۔ ویسے بھی یہ وقت تجدیدِ عہد کا ہے ، ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا، ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے کا، اس لیئے اس قسم کے حرکات کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تاکہ جو سفر امن کی آشا نے شروع کیا ہے وہ پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے اور دونوں ملکوں کے عوام سکھ اور چین کے ساتھ رہ سکیں۔

پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم اس پہلے T20ورلڈ کپ میں ابھی تک ناقابلِ شکست ہے اور اس ٹیم نے کل بھارت کو بھی آئوٹ کلاس کر دیا تھا اور ہماری بلائنڈ ٹیم ورلڈ کپ کے لئے Favoriteبھی ہے۔ اس لئے کوئی دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے کے دَر پہ بھی ہو سکتا ہے جس نے یہ ایسڈ کی بوتل وہاں رکھ دی ہو اور یہ بیچارے آنکھوں سے معذور نے بوتل منرل واٹر سمجھ کر حلق میں انڈیل لیا، انہیں کیا پتہ تھا کہ یہ اس کی موت کا ساماں کر رہا ہے۔ بحر حال گو کہ یہ معاملہ نہایت پیچیدہ ہے اور اس سے کرکٹ کے شائقین کو دلی صدمہ پہنچا ہے ، ہو سکتا ہے کہ پڑوسیوں کے کرکٹ فین کو بھی اس کا صدمہ ہوا ہو ، لہٰذا اس مضحکہ خیز اورصفاک کردار کو سامنے لانے کیلئے سخت ترین کاروائی عمل میں لایا جانا چاہیئے۔ اس سلسلے میں ہماری وزارتِ خارجہ سمیت اہم احباب کو بھی احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیئے ، کیونکہ سپوت تو اس ملک کا ہسپتال میں پڑا ہے۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی