شکریہ مائیک مولن اور ڈینگی مچھر

dangi

dangi

اہل ِ دانش کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو اپنی ایک چیز سب سے زیادہ عزیر ہوتی ہے اور وہ ہے اُس کی جان مگر بہت کم ہی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مٹھی بھر ہی دنیامیں ایسے جنونی قسم کے لوگ گزرے ہیں جن کے نزدیک اپنی جانوں سے زیادہ اِن کے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل مقدم رہی ہے اور ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اورجب تک دنیاقائم رہی گے ہرزمانے میں حقیقتاََبھی ایسے لوگ کم یازیادہ موجود رہیں گے جن کے سامنے اِن کی زندگیوں سے کہیں زیادہ اِن کی سوچ خواہ منفی ہویا مثبت تعمیری ہویاغیرتعمیری ، عالم انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے ہویا صرف اپنی ذات کی تسکین و تشفی ہی اہمیت کے حامل رہے ایسے افراد اور گروہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔جن سے کبھی دنیاسُکھ اور کبھی مشکلات اور پریشانیوں کا بھی شکار ہوتی رہے گی۔غرض کے ایسے لوگ کسی کی پرواہ کئے بغیر دنیاکو اپنی مرضی سے چلانے اور ہواؤںکا رخ اِدھر اُدھر موڑنے اور اِسی اپنے قابومیں رکھنے کا بھی منصوبہ بناتے اور خود ہی بگاڑتے رہیں گے یعنی یہ کہ دنیاایسے لوگوں سے کبھی بھی خالی نہ تو پہلے رہی تھی اور نہ ہی آئندہ رہے گی کوئی جتنے بھی جتن کرڈالے دنیا ایسے لوگوں سے خود کو پاک نہیں کراسکتی میرا مطلب میرے قارئین اچھی طرح سے سمجھ رہے ہوں گے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے۔ اگرچہ آج اِس زاویئے کی رو سے ہم سے دیکھیںتو یہ حقیقت کا رنگ ہمارے اردگرد بھی موجود نظر آئے گایعنی یہ کہ اگر ہم ایک طرف نائن الیون کے سانحہ میں ملوث اُن عناصر کے مقاصد اور عزائم کا جائزہ لے کر یہ یقین کرلیں کہ سانحہ نائن الیون میں کونسے عناصر اپنے کِن عزائم اور منصوبوں کے ساتھ ملوث تھے تو اِس کے بعد اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں رہے گا کہ وہ اَب تک اپنے عزائم میں کتنے کامیاب اور ناکام نظر آرہے ہیں اِسے بھی دنیاکو تسلیم کرلیناچاہئے کہ سانحہ نائن الیون میں ملوث (امریکا، بھارت اور اسرائیل پر مشتمل )یہ گروہ جواپناسب کچھ تباہ وبرباد کرکے دنیاکا نقشہ بدلنے کا خواب دیکھ رہاتھا اِس گروہ کے سربراہ امریکا کا یہ حال سامنے آناشروع ہواہے کہ اِسے ہر محاذ اور روزمرہ کے چلانے والے ملک کے ہر اہم اُمور ی شعبوں میں ناکامی اور سُبکی کا منہ دیکھناپڑرہاہے امریکا جو سانحہ نائن الیون کا اہم کردار ہے اِس وقت دنیاکا سب سے بڑامقروض ملک ہے اَب امریکا سمیت دنیابھر کے بھی ماہرین اقتصادیات کا خیال یہ ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکا 143ٹریلین ڈالر قرضوںکے بوجھ تلے دباہواہے جبکہ سانحہ نائن الیون کے بعد سے مختلف ممالک میں صلیبی جنگوں میں ملوث رہنے والے اِسی امریکا کے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر صرف 140بلین ڈالررہ گئے ہیںاور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہاجارہاہے کہ اِن خودساختہ جنگوں کی وجہ سے امریکی معیشت بتدریج ڈوب رہی ہے اور اگر امریکاکا یہ حال رہاتو وہ دن کوئی دور نہیں کہ جب دنیاکو اپنے اِن ہی ڈالرروں کے عوض خریدکر غلام بنانے والا امریکا دنیاکے سامنے ایک ایک ڈالر کا محتاج ہوجائے گا اور کشکول ہاتھ میں لئے اپنی بقاء کے لئے بھیک مانگتانظرآئے گا۔  بہرحال اُدھر دوسری جانب دنیابھر کے سنجیدہ طبقے اِس بات پر پوری طرح کھلے اور دبے لفظوںاِن خیالات کے ساتھ متفق نظر آتے ہیں کہ سانحہ نائن الیون میں امریکی، اسرائیلی ،بھارتی اور طالبان مخالف آزاد خیال امریکی اور اسرائیلی نواز افغانی خود ملوث تھے اور اِس واقعہ کی سازش اِن تینوںممالک نے ملکر تیاری کی اور اِسے حقیقت کا رنگ دینے اور عملی جامہ پہنانے میں اِن تینوں نے ہی اپنے اپنے حصے کا خفیہ کام ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر خوب انجام دیااور اِس کے رونماہوتے ہی یہ اِس گمان میں مبتلارہے کہ دیر یا سویر یہ اپنے منصوبوں میں ایک طرف تو سوفیصد کامیابی حاصل کرلیں گے اور دوسری طرف سانحہ نائن الیون میں مسلمانوں کو ملوث ہونے کا ایساڈرامہ رچاکر اِس کے ہر کردار کے ڈانڈے مسلمانوں کے بہادر سپوتوں سے ملادیں گے اورپھر مسلمانوں کو دہشت گرد قراردلواکر اِن کی ترقی و خوشحالی کے تمام راستے بنداور تنگ کردیں گے کے بعد ساری دنیامیں عیسائی، یہودی اور ہندوؤں کی حکمرانی قائم ہوجائے گی اور مسلمان ایک غلام قو م کی حیثیت سے رہ جائیں گے اِن کے سارے تیل اور سونے کے ذخائر سمیت اِن کے دیگر وسائل اور اِن کی ساری دولت پر ہماراقبضہ ہوجائے گامگر یہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکے۔اگرچہ یہاں یہ امر حوصلہ افزاہے کہ اَب آہستہ آہستہ دنیاپر یہ حقیقت عیاں ہونی شروع ہوچکی ہے کہ سانحہ نائن الیون میں فرنٹ لائن کا کردار اداکرنے والا امریکا جس نے اسرائیل ،بھارت اور افغانستان کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی سرزمین کو مسلمانوں سے صلیبی جنگ شروع کرنے اور ساری دنیا بالخصوص مسلم ممالک میں اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑنے جیسے اپنے گھناؤنے خوابوں اورعزائم کی تکمیل کے خاطر خود استعمال کیاتھاوہ اَب اپنی معیشت کی دگرگوں ہوتی صورت حال سے پریشان ہے اور اپنے خوابوں کی تعبیر کو کرچی کرچی ہوتادیکھ رہاہے۔کیوںکہ اِسے یہ یقین ہوچلاہے کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میںاِس کو شکست کا سامناہے جس کا سارا مبلہ امریکا پاکستان پر ڈالنے کے بہانے تلاش کررہاہے جس کے لئے امریکی انتظامیہ اور امریکی افواج نے سربراہان نے پاکستان پر طرح طرح کے من گھڑت الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔  جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اِس سارے منظر اور پس منظر میں ہماری قوم کو تو امریکا کے 17ویں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائک مولن کا تہہ دل سے شکرگزار ہوناچاہئے کہ جو اپنی چار سالہ مدت ملازمت ختم ہونے سے بیس ،پچیس روز قبل ہمارے حکمرانوں اور افواج پاکستان کے خلاف ایسے انہوکے اور دلخراش انکشافات کرگئے جن کی وجہ سے جہاں پاک امریکا تعلقات نازک موڑ پر پہنچے گئے تووہیں
ہماری قوم بھی متحد اور منظم ہوگئی ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستا ن پر لگائے گئے اِن بے مقصد الزمات او ر کئے گئے انکشافات کا آج اگر امریکی انتظامیہ نے ازالہ نہ کیاتو پھر قوم کو یہ بھی یقین ہوجاناچاہئے کہ اِس کا اپنے حکمرانوں اور افواج پاک کے سربراہاں سے یہ مطالبہ جو ہمیشہ سے رہاہے کہ” ہمارے حکمران، سیاستدان اور دیگراہم اداروں کے سربراہان امریکا کی جی حضوری کا سلسلہ بندکردیں جواَب ختم ہوتامحسوس ہورہاہے اور ہمیں یہ یقین ہے کہ اَب یہ ضرور پوراہوجائے گا تو وہیں ہماری قوم بھی خشک اور روکھے پھیکے امریکی رویوں کی وجہ سے اِس کے ہر جارحیت پسندانہ عزائم سے مقابلہ کرنے اور اِس سے ہر قسم کے خیر سگالی کے رشتے ناطے توڑکر اِس کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کربات کرنے اور اپنا مؤقف برابری کی سطح پر بیان کرنے کے لئے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی شکل میں متحد اور منظم نظرآئی ہے جس کی زندہ مثال گزشتہ دنوں وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والی اپنی نوعیت کی وہ فقیدالمثال آل پارٹیز (کُل جماعتی)کانفرنس ہے جس میںامریکی انتظامیہ ، آرمی چیف اور امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے پاکستان کے دہشت گردوں سے رابطے سے متعلق لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کیاگیااور ایک بارہ نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیاجس میں امریکا پر یہ دوٹوک الفاظ میں واضح بھی کردیاگیاکہ ” پاکستان امن پسند ملک ہے، اِس کا کسی بھی حقانی یا دہشت گرد گروپ سے کوئی رابطہ نہیں ہے ،امریکا افغانستان میں اپنی غلط حکمت عملی کے باعث ہونے والی اپنی ناکامیوں کا مبلہ جاتے جاتے پاکستان کے سر نہ مارے بلکہ حقائق پر مبنی زمینی صورت حال کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی ہونے والی نامیوں پر اپنی قوم کو اعتماد میں لے اور اصل حقائق سے اِنہیںآگاہ کرے اور دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی پاکستان کی قربانیوں سے متعلق بھی اپنی قوم کو بتائے اور اِن میں پاکستان کا مورال بلند کرے اور ساتھ ہی اِس کانفرنس میں امریکا کو یہ بھی باور کردیاگیاکہ ”رابطے چاہتے ہیں پر امتیازی سلوک بندکیاجائے، قبائلی علاقوں سے مذاکراتی عمل فی الفور شروع کیاجائے اورہم کسی بھی صورت میں اپنی سرحدوںکا تقدس پامل نہیںہونے دیں گے۔اِس ساری صورت حال کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان سمیت پوری پاکستانی قوم نے جس ملی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہر ہ کرتے ہوئے امریکی رویوں اور اِس کے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات اور خدشات کو جس طرح مسترد کیاہے یہی وہ جذبہ ہے جس کا اظہار ہمیں اِس بات کا احساس دلاتاہے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اوراپنے ملک اور قوم کی بقاء وسالمیت کے لئے ہر وہ قدم اٹھانے سے بھی کبھی دریغ نہیں کرتے جس سے ہمارے ملک اور قوم کو استحکام اور جِلاملے اِس موقع پر ہم اپنی قوم کو یہ اُمید دلاناچاہتے ہیں کہ ہماری قوم کو اپنی فوجی اور سیاسی قیادت پر پوراپورابھروسہ اور اعتمادکرناچاہئے کہ وہ  پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کا ہر حال میں دفاع کوصحیح معنوں میں ایک مقدس فریضہ جان کر اپنے خون کے آخری قطرے تک اداکریں گے اور یقینی طور پر اِس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے جیساکہ اِنہوں نے کُل جماعتی کانفرنس میں اِس بات کا عزم مصمم کیاہے کہ یہ” سرحدوں کا تقدس کسی بھی حال میںاپنے اور اغیار کی سازشوں کے ہاتھوں پامال نہیں ہونے دیں گے اور قومی مفادات کو ہر لحاظ سے مقدم رکھیں گے اور نہ صرف یہ بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے سُنہرے اُصولوں اور ضابطوں کے عین مطابق پاکستان علاقائی اور عالمی سطح پرامن اور استحکام کے فروغ کے لئے بھی کوشاں رہے گااور اِس کے ساتھ ہی قوم کو اپنے سپہ سالار اعظم آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی پر بھی فخر ہوناچاہئے کہ جنہوں نے کل جماعتی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب اور اِن کی جانب سے چھپتے ہوئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے جس بہادرانہ لب ولہجے میں امریکاسمیت اُن دشمنان پاکستان کو یہ بات باور کرادی ہے کہ پاک فوج ملک کے دفاع کے لئے تیار ہے اور یہ اِس کا مقدس فریضہ ہے جس سے وہ کسی بھی صورت نہ تو غافل ہے اور نہ ہی تساہل سے کام لے سکتی ہے۔ جبکہ یہاں یہ امر بھی انتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزاہے کہ پاک امریکا تعلقات کے تناؤ اور کھینچاؤ کی وجہ سے جو دوممالک میں تعطل پیداہوگیاہے اِس حوالے سے بلائی جانے والی کل جماعتی کانفرنس نے پوری پاکستانی قو م اور سیاسی اور عسکری قیادت کے خودی اور غیوریت کے جذبے کو جھنجھوڑ کررکھ دیاہے اور اِنہیں ایک نقطے ملی یکجہتی اور اتحاد کی لڑی میں تسبیح کے خوبصورت دانو ں کی طرح پروکر متحد اور منظم کردیاہے جوکہ اچھی بات ہے اور اِسی کے ساتھ ہی ہمیں امریکا کے سترویں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کا حقیقی معنوں میں شکرگزار ہوناچاہئے جنہوں نے افغانستان میں اپنی ہوتی ہوئی شکست کا ملبہ جہاں پاکستان پر ڈالنے کے لئے اپنی مدت ملازمت کے اختتام سے چندروزقبل پاک امریکا تعلقات میں دوریاں پیداکرنے کے لئے ایسے انکشافات کئے جو حقائق پر تو قطعاََ مبنی نہیں تھے مگر اِن کے اِنکشافات نے حقیقی معنوں میں ہماری کہیں سیاسی ،کہیں مذہبی ،علاقائی اور کہیںلسانی بنیادوں پر برسوں سے منتشر ہوتی قوم کو ضرور متحد اور منظم کردیاہے۔مگر اِن ساری اچھی اور قابلِ تعریف اور حوصلہ افزاباتوں کے باوجود بھی ہمیں یہ دھڑکا اور مخمصہ مارے ڈال رہاہے ہمارے حکمران ، سیاست دان ،دیگر اداروں کے اعلیٰ عہدیداران اور قوم ہر بار کی طرح اِس مرتبہ بھی کہیں مصالحت پسندی اور امریکی چاپلوسی کے جادوئی اثر کا شکار ہوکراور ڈالروں کی چمک سے اپنی آنکھیں پھر نہ بندکرلیں اور وہی کریں کہ جیسااِنہوں نے بندکمرہ اجلاس میںپیش کی جانے والی قرار داد کے ساتھ کیا تھا جس کے کسی ایک بھی نکتے پر آج تک عمل نہ ہوسکا یہاں ہم اپنے پورے وثوق سے کہہ رہے ہیںکہ اگر اِس قرار داد پر پوری طرح سے عمل درآمد ہوجاتاتو شائد آج جو حالات پیدا ہوگئے ہیں یہ نہ ہونے پاتے اور نہ کل جماعتی کانفرنس منعقدکی جاتی اور نہ پھر کوئی بارہ نکاتی مشترکہ اقرار پیش کی جاتی اور نہ آج حسب عادت مولانافضل الرحمان کی دورانِ اجلاس طبیعت بگڑتی اور یہ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر جاتے یکد م ایسے ہی جیسے یہ بندکمرہ اجلاس میں کسی وجہ سے کوئی بہانہ تلاش کرکے حاضر نہیںہوسکے تھے اِ س بار بھی اِن کی کسی وجہ سے طبیعت خراب تو نہ ہوتی۔ اگرچہ یہاں یہ امر بھی حوصلہ افزاہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کی اتحاد اور ملی یکجہتی کے جذبے کو دیکھتے ہوئے ایک امریکی اخبار نے امریکی حکام کے حوالے سے لکھاہے کہ امریکی حکام نے اِس با ت کا اعتراف کرلیاہے کہ امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن نے افغانستان میں اپنی ہوتی ہوئی شکست کا مبلہ پاکستان کے سراِس لئے ڈال دیاہے کہ اِن کے انکشافات کے بعد ایک طرف تو امریکی عوام اِن کی ذمہ داریوں کی تعریف کریں گے اور دوسری طرف امریکی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کریں گے کہ مولن کی مدت ملازمت میں توسعی کی جائے یہ سوچ کر مولن نے پاکستان پر ششسدر رہ جانے والے انکشافات کرکے پاکستان کو غلط طور پر ملوث کیا جس کے ثبوت ناقص ہیںاور امریکی انتظامیہ نے یہ بات بھی مان لی ہے کہ آئی ایس آئی سے متعلق امریکی فوج کے سربراہ کا بیان صریحاََ مبالغہ آرائی پر مبنی تھا جس نے امریکی حکومت کو مشکل میں ڈال دیااور جس کی وجہ سے ایک طرف پاکستان میں شدیدردِ عمل ہواہے تو دوسری طرف واشنگٹن میں بھی غلط فہمیاں پیداہوئیں ہیں اور امریکی انتظامیہ اور افواج کئی حصوں میں تقسیم ہوئیں ہیںالبتہ !اخبار نے امریکی حکام کے حوالے سے اِس بات کا بھی اعتراف کرتے ہوئے لکھاہے کہ مولن نے بغیرسوچے سمجھے اوراپناپیشہ ورانہ قداونچاکرنے کے لئے اپنی مدت ملازمت کے اختتام سے چند روز قبل ایسا بے مقصد اور بغیر ثبوت کے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیاہے کہ جب اوباماانتطامیہ اسلام آباد کو افغانستان میں موجود دہشت گردگروپ کے خلاف کارروائی کے لئے تیار کررہی تھی اور یوںامریکی اخبار،اور پینٹاگون نے
مولن کی اِس من پسند بیان کو مستردکردیا۔اِس ساری صورت حال میں یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ” پاکستان کی جانب سے شدید ردِعمل کے سامنے آجانے کے بعد اَب کیاامریکی انتظامیہ،امریکی افواج اور امریکی اخبارات سب کے سب بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں جو اپنی سُبکی مٹانے کے لئے مولن کو موردِ الزام ٹھیراکر پاکستان سے اپنے پہلے جیسے ایک بار پھر تعلقات استوار کرناچاہتے ہیں…؟ اور ایسے اُلٹے سیدھے بیانات دے رہے ہیں جن کا نہ سر ہے اور نہ پیر جیسے اَب اِسی کو ہی لے لیجئے کہ اخبار لکھتاہے کہ ”مولن کا بیان ایک ایسے وقت میں آیاہے جب اوباماانتظامیہ پاکستا ن کو افغانستان میں موجوددہشت گردگروپ کے خلاف کارروائی کے لئے تیارکررہی تھی”تو ایسے میں مولن نے اپنایہ بے مقصد بیان دے کر بنتابناتاکام بگاڑ دیا ۔ اِ س ساری صورت حال میں ہماراخیال یہ کہ جب افغانستان میں دہشت گرد گروپ اور ایک عرصے سے افغانستان ہی میں امریکی افواج بھی موجود ہیں تو پھرامریکی اور نیٹوافواج افغانستان میں موجود اِن دہشت گردوں کا خاتمہ کیوں نہیں کردیتیں اِن سے مقابلہ کرنے اور اِن دہشت گردگروپ کے خلاف فیصلہ کن کارروائیوں کے لئے سرحدپار پاکستان کو کیوں تیار کیاجارہاتھا….؟جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اخبار لکھتاہے کہ امریکی انتظامیہ اور نیٹو افواج یہ بات تسلیم کرتی ہیں کہ سارے دہشت گرد گروپ افغانستان میں ہی موجود ہیں پاکستان میں کوئی گروپ کام نہیں کررہاہے مگر اِس کے باوجود بھی نیٹوافواج اِن کے خاتمے کے لئے بظاہر تو متحرک نظر آتی ہے مگر ہیل حجت سے بھی کام لیتی ہے اِس کی کیا وجہ ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔ ؟ بہرکیف! مولن کے انکشافات کی وجہ سے جہاں پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی پیداہوجانے کے باعث امریکی جارحیت کامقابلہ کرنے کے خاطر مجموعی طورپر ہماری قوم متحداور منظم ہوئی ہے تو وہیںڈینگی مچھرکے کاٹنے اور جان لیوابخار کے خوف نے بھی ہمارے معاشرے میں پھیلنے والی بے پردگی کے خاتمے کے لئے بھی اہم کردار اداکیاہے اور یہی وجہ ہے کہ ڈینگی مچھر کے خوف نے خواتین کو اپنے جسم ڈھانپنے اور اِسی طرح ہمارے چڈاپہن کر اور قمیضیں اُتار کر گلی، کوچوں ،بازاروں اور دیگر پبلک مقامات پر گھومتے پھرتے اور دندناتے نوجوانوں کو چڈاچھوڑنے اور قمیض پہنے پر مجبور کرکے اِنہیں بھی بے باشریعت بنادیاہے جس کے لئے ہمیں ڈینگی مچھرکا بھی شکریہ اداکرناچاہئے کیوںکہ آج جو کام مفکراور اہلِ دین و دانش  نہ کرسکے وہ کام ایک چھوٹے سے ڈینگی مچھرنے کردیاہے۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم