شکوہ

painting of nature

painting of nature

کچھ نہیں ،بس یو نہی خیال آیا تھا اور برش کینوس پر چلتا چلا گیا ۔ رنگ پر رنگ چڑھنے لگا اور خالی خولی لکیریں زندگی کا مزا چکھنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں بے جان کینوس جیسے زندگی کا روپ پانے لگا۔ ایک لکیر جو ترچھی پڑی تو اجاڑ شاخوں پر پھول کھل گئے ، ایک لکیر جو آڑی پڑی تو انجان راستوں پر قدموں کے نشاں بن گئے۔ کہیں دہکتا ہوا سورج جلنے لگا اور کہیں چاند شرمانے لگا۔ وقت بھی اپنے حصے کا برش پھیر گیا اور کینوس صبح و شام کے رنگوں سے سجنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی تصویر بنی کہ خود برش بھی کینوس سے شرمانے لگا۔ آرٹ گیلری میں وہ چپ چاپ کھڑا ہوا سفید بالوں والا بوڑھا آرٹسٹ پہلے تو اس تصویر کو تکتا رہا جیسے خود کے بنائے ہوئے شاہکار کو نظروں ہی نظروں میں تول رہا ہو مگر جلد ہی اسے یوں لگا جیسے اس کا دل کسی انجانے خیال سے بھرآیا ہو۔ کچھ ہی دیر میں اسکی نظروں میں تصویر د ھندلانے سی لگی ۔۔اور پھر جیسے تصویر کا ہر ایک رنگ اس کی ذات میں جذب ہوتا چلا گیا۔۔یہی وہ چند لمحے تھے کہ جب وہ بو ڑھا آرٹسٹ اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا۔ ۔ تصویر اس میں شامل ہو گئی اور وہ تصویر میں شامل ہو گیا۔

old artist

old artist

اور پھر اس بوڑھے آرٹسٹ کو یوں لگنے لگا جیسے کینوس پر اس کی کھینچی ہوئی آڑی ترچھی لکیریں ، اس کی بنائی ہوئی رنگوں کی بہاریں اور زندگی کی صبح و شامیں، سب ہی اس سے غم ناک فغاؤں سے فریاد کر رہی ہیں ۔۔ اسے یوں لگا کہ جیسے وہ بلک بلک کر رو رہی ہیں اور اس سے پوچھ رہی ہیں ۔۔ کیوں ایسی بھی کیا ضرورت تھی ۔۔؟ تم نے ہمیں بے جان رنگوں سے ایک ہستی کی شکل دے دی۔۔ ۔۔ تمہیں پتہ ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔ یہ جو تمہارا برش رنگوں کی بہاریں لایا ہے ۔۔۔۔۔ وہ تخلیق سے پہلے بہت سے جنموں کی آزمائشوں سے بھی گزرا ہے ۔۔۔۔۔ وہ ہر ایک رنگ میں جل کر تم جیسے تخلیق کار کے ہاتھوں میں ابھرا ہے ۔ تمہیں پتہ ہے ناں اِن ہرایک آڑی تر چھی لکیروں کے پیچھے کھوئی ہوئی رتوں کے الم ناک افسانے بھی ہیں ۔۔۔۔ تبھی تو ان اجاڑ شاخوں میں کہیں پھول کھلے ہیں اور کہیں قدموں کے نشاں۔۔۔۔ یہ دہکتا ہوا سورج ،یہ شرماتا ہوا چاند، یہ شریر تارے ،یہ افق کی تمتماتی ہوئی سرخی، یہ شام کا ملگجا اند ھیرا ۔۔۔۔۔۔یہ گزرتے ہوئے وقت کی علامتیں۔۔۔۔۔۔۔یہ سارے ہی رنگ تمہارے خیالوںمیں بس کر ہم گمنام لکیروں کوزندگی دے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر کیوں ۔۔۔۔۔۔ کیا محض بازار میں بیچنے کے لیے۔۔۔۔۔۔ ؟ اچانک آرٹ گیلری میں چپ چاپ کھڑا ہوا بو ڑھا آر ٹسٹ اپنی بنائی ہوئی تصویر کو تکتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ دھندلالی ہوئی تصویر پھر سے رنگوں کا روپ پانے لگی، پھر سے اس کے نقوش نمایاں ہونے لگے اسے لگا جیسے اس کی بنائی ہوئی تصویر کسی روتے ہوئے بچے کا آنسوؤں سے دھلا ہوا چہرا بن گئی ہو ۔

Old Man Praying

Old Man Praying

اس را ت وہ سفید بالوں والا بو ڑھا آرٹسٹ اپنی جائے نماز پر دیر تک روتا رہا اور کسی بلبلاتے ہوئے بچے کی طرح اپنے خداوند تعالی سے گڑ گڑا کر فریاد کرتا رہا ۔ ۔۔ کیوں ایسی بھی کیا ضرورت تھی ۔۔؟ تم نے ہمیں بے جان رنگوں سے ایک ہستی کی شکل دیدی ۔۔ تمہیں پتہ ہے ناں تمہاری اِن ہرایک آڑی تر چھی لکیروں کے پیچھے بہت کربناک فسانے ہیں۔۔ بھوک ، غربت ،بیماری افلاس و لاچارگی کے صدیوں پرانے زمانے ہیں ۔۔ تمہاری تصویر کے رنگوں میں انسانی لہو سے بنے ہوئے آشیانے ہیں۔۔ تمہارا برش جو رنگوں کی بہاریں لایا ہے ، وہ جو خیال کی صورت میں تم میں سمایا ہے ۔۔۔۔۔اسے وہیں بسے رہنے دیتے۔۔۔۔۔ ہمیں اپنی ہی ذات کا حصہ بنے رہنے دیتے ۔۔ہماری ہستی کی ایسی بھی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔ کیا محض اپنی ذات کو جاننے کے لیے ۔۔؟ کیا محض اپنی تخلیق کو ناپنے کے لیے۔ ؟ تمہیں تو پتہ ہے ناں۔۔ میری تخلیق تو آرٹ گیلری میں محض ایک بار بکتی ہے اور تمہاری تخلیق یہاں دنیا میں بار بار۔ ۔۔ تحریر: ڈاکٹر بلند اقبال