وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت

waiting good days

waiting good days

وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت

کسی کے سر پہ کبھی ٹوٹ کر گرا ہی نہیں
اس آسماں نے ہوا میں قدم جمائے بہت

نہ جانے رُت کا تصرف تھا یا نظر کا فریب
کلی وہی تھی مگر رنگ جھلملائے بہت

ہوا کا رخ ہی اچانک بدل گیا ورنہ
مہک کے قافلے صحرا کی سمت آئے بہت

یہ کائنات ہے میری ہی خاک کا ذرہ
میں اپنے دشت سے گزرا تو بھید پائے بہت

جو موتیوں کی طلب نے کبھی اُداس کیا
تو ہم بھی راہ سے کنکر سمیٹ لائے بہت

بس ایک رات ٹھہرنا ہے، کیا گلہ کیجیے
مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت

جمی رہے گی نگاہوں پہ تیرگی دن بھر
کہ رات خواب میں تارے اُتر کے آئے بہت

شکیب کیسی اُڑان اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے
کہ زیرِ دام جب آئے تھے، پھڑ پھڑائے بہت

شکیب جلالی