کراچی کے تاجروں کا بھتہ خوروں کے خلاف اسلحہ اٹھانے کا فیصلہ

karachi

karachi

تاجروں کا معاشی قتل تو ہو چکا، معاشی طور پر تو انھیں ختم کر دیا گیا ہے، وہ نا چلنے پھرنے اور نا ہی کاروبار کرنے کے لائق ہیں۔ انھیں ہر طریقے سے نقصان پہنچایا گیا ہے اور یہ نقصان ایسا ہے جو ناقابل تلافی ہے جس کا ازالہ تاجر کئی برسوں تک نہیں کر پائیں گے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تاجروں اور کاروباری شخصیات نے بھتہ خوری میں غیر معمولی اضافے سے تنگ آ کراس جرم میں ملوث عناصر کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاجروں کی مقامی تنظیم ٹریڈرز ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگر ایک طرف صوبائی حکومت ان کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے تو دوسری طرف سراغ رساں ادارے بھی بااثر بھتہ خوروں کے خلاف کارروائی کرنے سے بظاہر گریزاں نظر آتے ہیں۔
تنظیم کے چیئرمین صدیق میمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ سیاسی مصلحتیں ہیں اور کچھ دوسرے معاملات ہیں، لیکن اب تاجر اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اگر کراچی کی معیشت کو بچانا ہے تو اس قسم کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ تاجروں کو بھتے کی عدم ادائیگی کی صورت میں جرائم پیشہ عناصر کی طرف سے جان سے مار دیے جانے جیسی سنگین دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پہلے تو ان کے چند گروہ تھے لیکن اب چھوٹے چھوٹے متعدد گروہ کھلے عام مارکیٹوں میں دندناتے پھر رہے ہیں، تاجروں سے پیسہ وصول کر رہے ہیں، ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور انھیں کاروبار نہیں کرنے دے رہے۔
صدیق میمن کا کہنا تھا کہ اس انتہائی پریشان کن صورت حال میں کئی تاجروں نے اپنا کاروبار بند کر دیا ہے جب کہ متعدد اپنی ذمہ داریاں ملازمین کو منتقل کرنے کے بعد روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔