” کھول دو”

one of the largest mass migrations in history

one of the largest mass migrations in history

امرتسر سے ٹرین دوپہر دو بجے چلی اور آٹھ گھنٹوں بعد مغل پورہ پہنچی، رستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ صبح دس بجے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی سرزمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اسکی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہو ئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ اسکے ہوش و حواس شل تھے، اسکا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔

گدلے آسمان کیطرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اسکے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اسکے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں، لوٹ، آگ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگم بھاگ، اسٹیشن، گولیاں، رات اور سکینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کیطرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔

پورے تین گھنٹے بعد وہ ” سکینہ، سکینہ ” پکارتا کیمپ کی خاک چھانتا رہا، مگر اسے اپنی جوان بیٹی کا کوئی پتہ نہ ملا۔

refugees camp

refugees camp

چاروں طرف ایک دھاندلی سے مچی تھی، کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا، کوئی ماں، کوئی بیٍوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایکطرف بیٹھ گیا اور حافظے پر زور دیکر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی لیکن سوچتے سوچتے اسکا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا، جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔

سکینہ کی ماں مر چکی تھی اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا لیکن سکینہ کہاں تھی؟ جس کے متعلق اسکی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا۔ مجھے چھوڑ دو اور سکینہ کو لیکر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔

سکینہ اسکے ساتھ ہی تھی، دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے، سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کیلئے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا: ابا جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑیے۔ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی جیب کیطرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکینہ کا وہی دوپٹہ تھا لیکن سکینہ کہاں تھی؟

سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجے پر پہنچ نہ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اسکے ساتھ گاڑی میں سوار تھی؟ راستے میں جب گاڑی روکی گئی اور بلوائی اندر گھس آئے تو کیا وہ بیہوش ہو گیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لے گئے؟

چھ روز بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج ان لوگوں سے ملا جو اسکی مدد کرنے لیے تیار تھے۔ آٹھ جوان تھے جنکے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں، سراج الدین نے انکو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔ گورا رنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر سترہ برس کے قریب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بال سیاہ داہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لاؤ۔ تمہارا خدا بھلا کریگا۔

رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کیساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اسکی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اسکے پاس ہو گی۔

آٹھ نوجوانوں نے کوشش کی، جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ امرتسر گئے۔ کئی عورتوں کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انہوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا، دس روز گزر گئے مگر انہیں سکینہ کہیں نہ ملی۔

ایک روز اسی خدمت کیلئے لاری پر امرتسر جا رہے تھے کہ چہ ہرٹہ کے پاس انہیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ لاری کی آواز سن کر وہ بدکی اور بھاگنا شروع کر دیا۔ رضا کاروں نے موٹر روکی اور سب کے سب اسکے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انہوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ داہنے گال پر مرنا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا: گھبراؤ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟

آٹھ رضاکاروں نے ہر طرح سے سکینہ کی دل جوئی کی اسے کھانا کھلایا، دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔

ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دیدیا، کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔

کئی دن گذر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سراج الدین کو سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی، وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا لیکن کہیں سے بھی اسکی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو بہت بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگتا رہتا جنہوں نے اسکو یقین دلایا تھا کہ اگر اسکی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔

ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضاکاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا انکے پاس گیا۔ لاری چلنے والی تھی کہ اس نے پوچھا۔ بیٹا! میری سکینہ کا پتا چلا؟

سب نے یک زبان ہو کر کہا: چل جائیگا، چل جائیگا اور لاری چل دی۔
سراج الدین نے ایکبار پھر انکی کامیابی کیلئے دعا مانگی اور اسکا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔

railway line

railway line

شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اسکے پاس ہی کچھ گڑ بڑی ہوئی، چار آدمی اٹھا کر لا رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں۔ سراج الدین انکے پیچھے ہولیا لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے۔

کچھ دیر وہ ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کیساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا۔ جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اسکی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتاً روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا ” سکینہ ”۔

جس ڈاکٹر نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔ کیا ہے۔
سراج الدین کے حلق سے صرف اسقدر نکل سکا۔ ” جی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا باپ ہوں۔

ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کیطرف دیکھا۔ اسکی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا: کھڑکی کھول دو۔”

woman patient on stretcher

woman patient on stretcher

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔ ” زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی زندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔

تحریر: سعادت حسن منٹو