شیطان صفت چندلوگ اور فرشتہ صفت بچے

Child Abuse

Child Abuse

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی کثیر تعداد کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہے جہاں قریبی رشتوں اور دوست احباب کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے اور میل جول میں کوئی خاص فاصلہ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بچوں کا بھی اپنے ان عزیزوں کے ساتھ ایک حد تک اعتماد کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جس کی بنا پر والدین کی غیر موجودگی میں بچے ان عزیزوں کے ساتھ کہیں بھی آ جا سکتے ہیں قارئین کرام ! میرے لکھنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ قریبی رشتہ داروں اور عزیزوں پر شک وشبہ کیا جائے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ دین اسلام اور پیارے نبی حضرت محمد ۖ کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں بسر کی جائیں آپ اپنے بچوں کا دیگر عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احترام و عزت کارشتہ قائم رکھتے ہوئے ایک خاص حد تک میل جول رکھیں ۔سورة النور میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے” اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو” اسی سورت میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ” . آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔

بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں” قارئین کرام ! پاکیزہ زندگی بسر کر نے کے بارے دین اسلام نے ہر مقام پر زور دیا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا جس میں بسنے والوں کی 97%آبادی مسلمان ہے وہاں پر معصوم بچے اور بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہورہی ہیں ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق ہر روز گیارہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی بالغ خواتین کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے قصور کا علاقہ گزشتہ چند سالوں سے جنسی تشدد اور ہلاک کیے جانے والے بچوں کے حوالہ سے انتہائی توجہ کا طالب ہے قصور میں سال 2015میں ویڈیو سکینڈل سامنے آیا جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور انکی ویڈیو بنانے کا انکشاف ہوایہاں ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کی ششماہی رپورٹ 2017 کے مطابق تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58، کے پی میں 42 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو فیصد رجسٹرڈ ہوئے اگرگزشتہ دو برسوں میں اسلام آباد، قصور، لاہور، راولپنڈی، شیخوپورہ، مظفرگڑھ، پاکپتن، فیصل آباد، وھاڑی، خیرپور، کوئٹہ، اوکاڑہ اور سیالکوٹ ایسے اضلاع ہیں جہاں بچوں پر تشدد،زیادتی اور ہلاکت کے واقعات سامنے آئے۔

پولیس کے مطابق قصور کے علاقے روڈ کوٹ کی رہائشی 7 سالہ زینب 4 جنوری کو ٹیوشن جاتے ہوئے اغواء ہوئی اور 4 دن بعد اس کی لاش کشمیر چوک کے قریب واقع ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی پولیس کے مطابق بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیا گیا، جس کی تصدیق ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی۔ ضلع قصور میں بچی زینب کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے بعد قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں گزشتہ ایک سال کے عرصے میں 11 واقعات ہوئے ہیں افسوس کی بات یہ ہے ان واقعات میں ملوث کسی ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ان 11 واقعات میں صرف ایک بچی زندہ بچی ہے لیکن وہ بھی زیر علاج ہے اور پولیس کے مطابق وہ بولنے کے قابل نہیں ہے کمسن بچیوں کو اغوا کرنے کے واقعات قصور میں تھانہ اے ڈویژن کی حدود میں ہوئے جبکہ درندگی کا شکار ہونے والی ان بچیوں کی لاشیں تھانہ صدر کی حدود سے ملتی رہی ہیں زینب کی لاش بھی تھانہ صدر کی حدود سے ملی اس واقعہ کے ملزمان کی گرفتاری کے حوالہ سے تادم تحریرمیڈیا تک کوئی واضح معلومات نہیں پہنچیں۔

قارئین کرام ! بات کا آغاز تو میں نے ایک خاص جملے سے کیا تھا یہاں میں بتاتا چلا جائوں کہ زیادتی کے شکار ہونے والے بچوں کی اکثریت متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے حکومت اور اعلی حکام نے ان واقعات کا نوٹس تو ضرور لیا بلکہ زینب کی ہلاکت پر تو پورا پاکستان سراپا احتجاج ہے لیکن قانون اور پولیس ایسے مجرموں کو پکڑنے میں مکمل کامیاب کہیں دکھائی نہیں دیتی اگر وطن عزیز میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہونے کے اسباب تلاش کیے جائیں تو اس طرح کے حالات کو پیدا کرنے میں سوسائٹی ،میڈیا کو زیادہ مورد الزام ٹھرایا جا سکتا ہے ہم نے اچھی اقدار و روایات کو چھوڑ کر آزاد خیالی ،میل جول کے نئے طریقے متعارف کرو ادیے ہیں جنہیں ہم ترقی کہتے نظر آتے ہیں والدین نے معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اپنے بچوں کی تربیت کا سارا بوجھ اور وں پر ڈال دیا ہے میڈیا نے اپنے بزنس کے فروغ اور ریٹنگ کی دوڑ میں اخلاق باختہ ڈرامے ،فلمیں ،واہیات جملوں سے بھری گفتگو کو دکھانے ،چھاپنے کا لا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے شیطان صفت ،کام کاج سے فارغ ،بیمار ذہن کے افراد نے ان کا اثر قبول کرتے ہوئے اپنا اوڑھنا بچھوڑنا آوارگی کو بناتے ہوئے اس طرح کے مکروہ کاموں کی طرف کر رکھا ہے وطن عزیز میں سخت قوانین کی موجودگی کے باوجود بڑے بڑے دولت مند مجرموںکا قانون کی گرفت سے بچ جانا یا اصل مجرم کو سزا نہ ملنا بھی اس قسم کے واقعات کا سبب بن رہا ہے دوسرا بعض سیاست دانوں کاکچھ واقعات کو لے کر اپنی سیاست کوچمکانا بھی اصل حقائق و واقعات سے دور کر دیتا ہے۔

قارئین کرام !گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھربعض این جی اوز اور انکے نمائندوں جن میں میڈیا کے زریعے اچھی اقدار کا جنازہ نکالنے والوں نے بھی حصہ ڈال رکھا ہے نے معصوم بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے حوالہ سے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے مجھے ایسے لوگوں سے کسی بحث میں نہیں پڑنا ہو سکتا ہے وہ اپنے مطابق ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جنسی تعلیم کو بہتر سمجھتے ہوں لیکن میرے نزدیک ایسے واقعات کی روک تھا م کا واحد حل دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کا ہونا انتہائی اہم ہے اور حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کو قانون کے مطابق ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا اورحکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہروں میں پھیلے جواء ،جسم فروشی،منشیات کے اڈوں اور کاخاص طور پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرنے والوں کو سخت ترین اقدامات کرتے ہوئے قانون کے کٹہرے میں لائیں اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے بھر پور اقدامات کریںاللہ تعالی ہم سب کے حال پر رحم کرے اور ہمیں اپنی زندگیاں اسلام کی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
0333696372